شہرت وناموری سے پاک شخصیت ڈاکٹر اے آر قدوائی صاحب
اکثر لوگ ان کو بہار و بنگال ،دلی، ہریانہ اور راجستھان کے ایک کامیاب گورنر کی حیثیت سے جانتے ہیں۔ لیکن حق بات تو یہ ہےکہ جس طرح ان کی زندگی کایہ ایک کامیاب گوشہ ہے۔ اس کےاور کئی گوشے ہیں جو بے حد کامیاب ہیں۔ مثال کے طور پر وہ ایک بہترین سائنس داں تھے بلکہ ان کو شروع ہی سے سائنس سے لگاؤ تھا ۔ سائنس سے دلچسپی تھی۔ انہوں نے جو خدمات سائنس کی دنیا میں انجام دی ہیں، انشاء اللہ پروگرام کے دوران آپ ضرور سماعت فرمائیں گے، اور آپ کو محسوس ہوگا کہ ایک وہ انسان جو کسی صوبہ کی کمانڈری کررہا ہو جو کسی ریاست اور صوبہ کا گورنر ہو کیا ان کی زندگی کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ ان کو علم سائنس سے اس قدر دلچسپی رہی ہوگی؟۔ ان کی زندگی کا ایک اہم گوشہ یہ بھی ہے کہ وہ سیدھے ساھدے انسان تھے
افتتاحیہ |
شہرت وناموری سے پاک شخصیت ڈاکٹر اے آر قدوائی صاحب
… تنویرذکی مدنی"
آپ تمام حضرات اچھی طرح جانتے ہیں کہ آج کا یہ پروگرام ایک ایسی شخصیت کے اوپر ہے جن کی زندگی کے کئی اہم گوشے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہےکہ اگر ان کی زندگی کے مختلف گوشوں پر مستقل ایک ایک سمینار کیا جائے اور مستقل ریسرچ کیا جائے تب بھی کم ہے ۔وہ ایک ایسے انسان ہیں جن کو اللہ تعالی نے کافی لمبی عمر عطا کی ہے۔ اور خوشی کی بات یہ ہےکہ اس لمبی عمر کا صحیح استعمال بھی ہوا ہے۔ ان کی زندگی کا ایک اہم گوشہ یہ ہے-بلکہ اکثر لوگ یہی جانتے ہیں کہ جناب ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی صاحب جو آج ہمارے بیچ نہیں ہیں ، جن کی یاد سے ،جن کے ذکر سے آج ہماری آنکھیں نم ہیں ،ہمارا دل پارہ پارہ ہے۔
اکثر لوگ ان کو بہار و بنگال ،دلی، ہریانہ اور راجستھان کے ایک کامیاب گورنر کی حیثیت سے جانتے ہیں۔ لیکن حق بات تو یہ ہےکہ جس طرح ان کی زندگی کایہ ایک کامیاب گوشہ ہے۔ اس کےاور کئی گوشے ہیں جو بے حد کامیاب ہیں۔ مثال کے طور پر وہ ایک بہترین سائنس داں تھے بلکہ ان کو شروع ہی سے سائنس سے لگاؤ تھا ۔ سائنس سے دلچسپی تھی۔ انہوں نے جو خدمات سائنس کی دنیا میں انجام دی ہیں، انشاء اللہ پروگرام کے دوران آپ ضرور سماعت فرمائیں گے، اور آپ کو محسوس ہوگا کہ ایک وہ انسان جو کسی صوبہ کی کمانڈری کررہا ہو جو کسی ریاست اور صوبہ کا گورنر ہو کیا ان کی زندگی کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ ان کو علم سائنس سے اس قدر دلچسپی رہی ہوگی؟۔ ان کی زندگی کا ایک اہم گوشہ یہ بھی ہے کہ وہ سیدھے ساھدے انسان تھے۔
عام طور پر یہ دیکھا جاتا ہےکہ ہم میں سے جب کوئی انسان بڑا ہوجاتا ہے تو ان کے اندر عام طور پر دو چیزیں پائی جاتی ہیں۔ (1) وہ اپنے سے چھوٹوں کو بھول جاتا ہے۔ (2) وہ ملی مفاد اور قوم کی بہت ساری چیزوں کو بھول جاتا ہے وہ صرف اپنا عہدہ برقرار رکھتا ہے ۔ اپنا پرموشن اور اپنی ترقی کی طرف پوری نظر رکھتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہےکہ ڈاکٹر اخلا الرحمن قدوائی صاحب ایک ایسے انسان تھے جو ان ساری چیزوں سے، شہرت سے ،ناموری سے ریا ونمود سے مکمل پاک تھے۔ اگر وہ ان ساری چیزوں میں رہتے تو شاید ان کو وہ بلندی نہیں ملتی جو بلندی کہ آج انہيں ملی ہوئی ہیں۔ شاید ہم تمام لوگوں کے دل میں وہ جگہ نہیں ملتی آج ان کا جو مقام ہم تمام لوگوں کے دل میں ہے۔ بلکہ جہاں جہاں پر انہوں نے کام کیا ہے۔ اس علاقہ کے ،اس خطے کے تمام لوگوں کے دلوں پر آج ان کی حکومت ہے۔ خواہ اس کا تعلق کسی بھی دھرم سے ہو کسی بھی قوم سے ہو خواہ وہ مسلمان ہو،ہندوہو،سکھ ہو یا عیسائی ہو۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ جب وہ بہار کے گورنر تھے تو ایک طرف جہاں
انہوں نے اپنے آفیشیل کام کو بحسن خوبی انجام دیا ۔ وہی پر بودھ گیا کے اندر جاکے انہوں نے بودھسٹ کو تعلیم کی طرف راغب کیا ۔ اور صرف اس لیے ان لوگوں سے بے حساب تعلقات بڑھاتے چلےگئے تاکہ یہ قوم بھی تعلیم وتربیت کی طرف راغب ہو۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ سیمانچل ہندوستان کی سرزمین پر بھی اور بہار کے نقشہ میں بھی ایک ایسا علاقہ ہے جو بہت ہی پسماند ہ ہے۔ اور آج بھی وہاں تک جانے کے لیے لوگوں کو سوچنا پڑتا ہے۔ جو کافی خستہ حال دور افتاد علاقہ ہے ۔ اس علاقہ میں ایک بار نہیں دو بار نہیں تین بار نہیں چار چار بار یہ تشریف لے گئے اور توحید ایجو کیشنل ٹرسٹ کو انہوں نے شرف زیارت سے نوازا ہے۔ یہ صرف اس لیے تھا کہ اس ٹرسٹ کے فاؤنڈر اور بانی فضیلۃ الشیخ عبد المتین السلفی جن کا ذکر کرتے ہوئے آج ہماری آنکھیں نم ہیں ۔ جس طرح آج ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی اس دنیا میں نہیں ہیں اسی طرح سے ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی کے ایک بہترین دوست توحید ایجو کیشنل ٹرسٹ کے بانی شیخ عبد المتین السلفی بھی اس دنیا میں نہیں ہیں ۔ 16/جنوری2010ء کو ان کا بھی انتقال ہوگیا ۔ آج وہ بھی اپنے رفیق اعلی کے پاس ہیں۔ ان کا صرف ڈاکٹر صاحب سے گہرا تعلق اس بنیاد پر تھا کہ جناب عبد المتین السلفی نے ایک ایسے علاقہ میں جہاں غریبی تھی جہاں کے لوگ تعلیم سے کوسوں دور تھے۔ اس علاقہ میں انہوں نے تعلیم کی بنیاد ڈالی۔
آپ کا ردعمل کیا ہے؟