سیدہ فاختہ بنت ابو طالب رضی اللہ عنھا
اس نمازِ نبوی کو نمازِ فتح کانام دیا جاتا ہے۔ بعد کے مسلم حکمرانوں نے اللہ کے رسولﷺکی اس سنت مبارکہ کو زندہ رکھا اور جب بھی انہوں نے کوئی قلعہ یاشہر فتح کیا تو وہ نماز ادا کی۔ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے حیرہ کو فتح کیا تو رسول اکرمﷺکی اتباع وپیروی کرتے ہوئے شکرانہ کے طور پر آٹھ رکعتیں پڑھیں۔
سیدہ فاختہ بنت ابو طالب رضی اللہ عنھا
"… ابراہیم سجاد تیمی
گلشنِ اسلام میں داخلہ اسی کو ملتا ہے، جسے اللہ کی طرف سے خصوصی توفیق حاصل ہوتی ہے اور یہ توفیق اسی وقت ملتی ہے جو وقت قسامِ ازل نے لکھ رکھا ہے۔ اگر آپ تاریخ اسلام کے مرد وخواتین جیالوں کی حیاتِ درخشاں کا مطالعہ کریں گے تو ہماری اس بات کی تائید قدم قدم پر نظر آئے گی۔ آپ کو بڑا تعجب ہوگا جب آپ دیکھیں گے کہ بہت سارے ایسے افراد ہیں جن کے دلوں کی شفافیت اورحکمت ودانائی کو دیکھتے ہوئے خود محمد عربیﷺ ان کے قبولِ اسلام کی آس اپنے دل میں لئے بیٹھے ہیں مگر وقت گزرتا جارہا ہے اور وہ اسلام قبول نہیں کررہے ہیں۔ بعض دفعہ آپﷺکے دل میں یہ خواہش اس قدر شدت پکڑ گئی کہ رب کائنات نے اپنے رسول کو پیار بھرے انداز میں سمجھایا کہ آپ ہلکان کیوں ہوئے جاتے ہیں ان کی اسلام سے بے رخی پر؟ ہدایت دینا ، نہ دینا یہ اللہ کا کام ہے، آپ کی ذمہ داری بس اتنی سی ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کا پیغام ان تک پہنچادیجئے اور بس: "فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلٰٓي اٰثَارِہِمْ اِنْ لَّمْ يُؤْمِنُوْا بِہٰذَا الْحَدِيْثِ اَسَفًا" "ایسالگتا ہے کہ اگر وہ اس حدیث (قرآن کریم) پر ایمان نہ لائیں تو آپ مارے افسوس کےخود کو ہلاک کرلیں گے"(1)
ابوطالب بن عبدالمطلب کا گھرانہ ایسا تھا کہ جس کے درودیوار پر کم از کم دوقندیلیں آغازِ اسلام ہی میں -سیدنا علی وجعفر رضی اللہ عنہما کی صورت میں -روشن ومنور ہوچکی تھیں۔ یہ اور بات کہ اس باغ کے باغبان یعنی ابوطالب کو مرتے دم تک قبولِ اسلام کی توفیق نہیں ملی اور وہ حالتِ کفر ہی میں انتقال کرگئے اور ان کے باغ کے بعض لالہ وگل کو گلشنِ اسلام میں بڑی دیر سے کھل کر مہکنے کا موقع ملا۔ انہیں میں سے ایک ہیں سیدہ فاختہ بنت ابوطالب رضی اللہ عنہا جو تاریخِ اسلام میں ام ہانی کی کنیت سے مشہور ہیں اور جن کے گلستانِ حیات کے چند گل ولالہ بڑے اہتمام واحترام کے ساتھ آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت ہم حاصل کررہے ہیں:
سیدہ ام ہانی رضی اللہ عنہا کی زندگی کا یہ پہلو ہمیں حیرت میں ڈالتا ہے کہ جن کے گھر سے رسولِ عربیﷺ کو معراج نصیب ہوئی اور جس معراج کی خبر سب سے پہلے جن کی سماعت سے ٹکرائی ، انہیں قبولِ اسلام کی توفیق فتحِ مکہ کے موقع پر ملتی ہے اور یوں وہ "السابقون الأولون" کی فہرست میں شامل ہونے سے محروم رہ جاتی ہیں ؎
ایں سعادت بزور بازو نیست
تانہ بخشد خدائے بخشندہ
ہماری حیرت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کی ماں سیدہ فاطمہ بنت اسد بن ہاشم رضی اللہ عنہا کا روانِ اسلامی کے رہروانِ اولین میں سے ہیں۔ انہوں نے ہجرت وبیعت دونوں کا شرف حاصل کیا تھا لیکن ایسی عظیم ماں کی عظیم بیٹی اس کاروانِ خیر وفلاح میں فتح مکہ کے بعد شریک ہوتی ہے جس سے پوری طرح سمجھ میں آجاتا ہے کہ توفیق ربانی اپنے مقررہ وقت پر ہی ملتی ہے اور اس میں رشتہ وناطہ کام نہیں آتا۔ سیدہ ام ہانی رضی اللہ عنہا ، آپﷺکی سگی چچازاد ہمشیرہ تھیں لیکن قبولِ اسلام میں جو تاخیر اللہ نے لکھی تھی، وہ ہوکر رہی۔ام ہانی پورے مکہ میں عام قریشی خواتین کے درمیان عموما اور خواتینِ بنوہاشم کے درمیان خصوصا اپنی صواب دید اور ادبیت میں مشہورومعروف تھیں۔ فصاحت وبلاغتِ زبان وادب کا ورثہ اپنے والدِ محترم سے پایا تھا جو قریش کے فصیح وبلیغ زبان دانوں اور ادباء وشعراء میں سے ایک تھے۔ دوسری طرف ، اخلاقِ فاضلہ کے جواہر انہیں اپنی ماں سے وراثت میں حاصل ہوئے تھے جس نے انہیں عالمِ اسلام کی ممتاز خواتین کی فہرست میں شامل کردیا ہے۔
سیدہ ام ہانی رضی اللہ عنہا ، ہبیرہ بن عمرو بن عائذ مخزومی کے عقد زوجیت میں تھیں۔ ہبیرہ قریش کے نامور شعراء میں سے ایک تھا، اس سے انہیں عمرو، جعدہ، ہانیا اور یوسف پیدا ہوئے، جب اسلام کی نورانی کرنیں پھوٹیں تو ہبیرہ نے عدوان وسرکشی کی راہ اختیار کرلی اور کفر وشرک کی ظلمت کو توحید وسنت کی روشنی پر ترجیح دے ڈالی۔ فتح مکہ کے حسین موقع پر ام ہانی نے اپنے شریک حیات کی راہِ زیست کو چھوڑ دیا اور اسلام لے آئیں۔ تاہم یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ام ہانی ان لوگوں میں سے کبھی نہ رہیں جنہوں نے اسلام کی راہ میں روڑے اٹکائے یا اسلامی دعوت کی مخالفت کی یا اللہ کے رسول ﷺکی مخالفت ودشمنی پر کمر بستہ رہے بلکہ ام ہانی کے دل میں آپ ﷺکی عزت وتوقیر شروع سے اخیر تک رہی۔
تاریخی مصادر ومراجع کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ام ہانی رضی اللہ عنہا نے ۸ھ میں فتح مکہ کے بعد اسلام قبول کیا۔ اس فتحِ مکہ کے دن جس دن کے بارے میں ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ "فتح مکہ وہ عظیم ترین فتح تھی جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دین ، رسول، لشکر اور اپنی جماعت کو سربلندی وسرفرازی عطا فرمائی، اپنے شہر اور اپنے گھر کو کفار ومشرکین کے شکنجے سے آزاد کرایا، وہ ایسی فتح تھی جس پر آسمان والوں کو بھی حد درجہ مسرت وشادمانی ہوئی، اسی سے متاثر ہوکر لوگ جوق در جوق داخلِ اسلام ہوئے اور دھرتی کا چہرہ روشنی سے منور ہوا اور خوشی سے تمتما اٹھا"۔ (2)
اس دن جب اللہ کے رسولﷺمکہ میں داخل ہوئے تو کھڑے ہوکر فرمایا: "اے گروہِ قریش ! تم کیا سوچتے ہو کہ میں تمہارے ساتھ کیسا سلوک کرنے جارہا ہوں؟ قریش نے کہا: آپ سے ہمیں بہتر سلوک کی ہی امید ہے کیونکہ آپ رحم دل بھائی اوررحم دل بھائی کے فرزند ہیں۔ پھر قریش نے دیکھا اور سنا کہ آپﷺ فرمارہے ہیں: میں وہی بات آج تم سے کہہ رہاہوں جو یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے کہی تھی: "آج تمہاری کوئی سرزنش نہیں ہوگی،جاؤتم سب آزاد ہو"۔وہ دن قریش کے لوگوں کے لئے خاص دن تھا ہی لیکن سیدہ ام ہانی رضی اللہ عنہا کے لئے وہ کچھ زیادہ ہی امتیازی دن تھا۔ وہ ایسے کہ کعبہ مشرفہ کو بتوں کی آلائشوں سے پاک کرلینے کے بعد، آپ ﷺ ان ہی کے گھر کے اندر تشریف لے گئے، غسل فرمایا اور نمازِ فتح یا نمازِ شکر وہیں ادا فرمائی۔ یہ فضیلت ایسی ہے کہ جس میں ام ہانی کا ہمسر کوئی نہیں ہے۔ آپ ﷺنے ان کے گھر میں آٹھ رکعت نماز ادا فرمائی جس کا وصف بیان کرتے ہوئے وہ فرماتی ہیں کہ میں نے آپ ﷺکو اس سے زیادہ ہلکی پھلکی نماز ادا کرتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا، تاہم اس کے رکوع وسجود درجۂ کمال لئے ہوئے تھے۔ (3)
اس نمازِ نبوی کو نمازِ فتح کانام دیا جاتا ہے۔ بعد کے مسلم حکمرانوں نے اللہ کے رسولﷺکی اس سنت مبارکہ کو زندہ رکھا اور جب بھی انہوں نے کوئی قلعہ یاشہر فتح کیا تو وہ نماز ادا کی۔ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے حیرہ کو فتح کیا تو رسول اکرمﷺکی اتباع وپیروی کرتے ہوئے شکرانہ کے طور پر آٹھ رکعتیں پڑھیں۔
فضائلِ ام ہانی رضی اللہ عنہا میں ایک اورسرخاب کا پریوں لگا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ان کے ہاں کھانا کھایا اور تعریف کی۔ آپ ﷺنے ان سے کہا: کیا تمہارے پاس کھانا ہے جسے ہم کھاسکیں؟ کہنے لگیں: اے اللہ کے رسول ﷺ! کھانے کے نام پر میرے پاس باسی روٹی کے چند ٹکڑوں کے سوا کچھ نہیں ہے اور انہیں آپ کے سامنے پیش کرتے ہوئے مجھے خجالت محسوس ہورہی ہے۔ فرمایا: انہیں ہی لے آؤ۔ سیدہ ام ہانی رضی اللہ عنہا نے انہیں پانی میں بھگویا اور نمک ڈال کر لے آئیں تو آپﷺ نے ان سے فرمایا: شوربہ ہے؟ کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! تھوڑا سا سرکہ ہے، فرمایا: اسے لے آؤ۔ وہ لے آئیں تو آپ نے اسے روٹی کے ٹکڑوں پر ڈال دیا اور کھانے کے بعد اللہ کی تعریف کی اور فرمایا: بہترین سالن سرکہ ہے، اے ام ہانی! وہ گھر کبھی محتاجگی کا شکار نہیں ہوتا جس میں سرکہ ہو۔ (4)
رسولِ کائنات ﷺکی نظر میں ان کی کتنی عزت وتوقیر تھی، اس کا اندازہ درج ذیل واقعہ سے بھی لگایا جاسکتا ہے جو فتحِ مکہ کے دن پیش آیا، ویسے بھی ام ہانی رضی اللہ عنہا عہدِ جاہلیت میں بھی مظلومین کو پناہ دیتی اور قیدیوں کو رہائی دلانے جیسے عظیم کارہائے نیک انجام دیا کرتی تھیں۔ پھر جب اسلام آیا تو اس نے مسلم خواتین کی خوبیوں میں چار چاند لگادیے اور ان کو وہ مقام ومرتبہ دیا جس کے لئے وہ مدت سے ترس رہی تھیں۔ سیدہ ام ہانی رضی اللہ عنہا نے فتحِ مکہ کے دن ایسے دو افراد کو امان دے دی جن کے بارے میں زبانِ رسالت مآبﷺسے قتل کردیےجانے کا حکم جاری ہوگیا تھا۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ اللہ کے رسولﷺجب مکہ کے بالائی حصے تک پہنچے تو عبداللہ بن ابی ربیعہ اورحارث بن ہشام بھاگ کر میرے گھر آگئے۔ ان کا پیچھا کرتے ہوئے میرے بھائی علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بھی میرے گھرتک آگئے اور کہنے لگے کہ اللہ کی قسم! میں انہیں قتل کر کے رہوں گا، میں نے ان دو مفرورین پر اپنے گھر کا دروازہ بند کردیا اور اللہ کے رسولﷺکی خدمت میں حاضر ہوئی۔ آپ نے میرا پُرجوش استقبال کرتے ہوئے فرمایا: ام ہانی ! کیوں آنا ہوا؟ میں نے مفرورین کی خبردی اورعلی کے بارے میں بتایا کہ وہ انہیں قتل کرنے کے درپے ہیں تو فرمایا: اے ام ہانی! تم نے جنہیں امان دی ہے، سمجھو کہ ہم نے بھی انہیں امان دی ہے اور علی انہیں قتل نہیں کریں گے۔ (5)
اس واقعے کے بعد تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دلوں میں ام ہانی کی قدر ومنزلت میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان کی مرتے دم تک عزت واحترام کرتے رہے۔ تاہم ان کے شریکِ حیات ہبیرہ کو یہ اعزاز نہیں مل سکا۔ فتح مکہ کے دن وہ نجران فرار ہوگیا۔ اس نے اشعار میں اپنے فرار ہونے کے اسباب یا کہئے کہ اعتذار ظاہر کیا ہے۔ اس کے اشعار کا مفہوم یہ ہے کہ "قسم ہے عمر کی! میں نے بزدلی یا مارے جانے کے خوف سے محمد (ﷺ) اوران کے اصحاب (رضی اللہ عنہم) سے راہِ فرار اختیار نہیں کی، بلکہ جب میں نے اپنے امورِ زندگی پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ ان کے خلاف میری شمشیرزنی کا کوئی مطلب نہیں رہ گیا ہے۔ میں نے سوچا اور غور وتدبر کیا تو لگا کہ میرا موقف میرا ساتھ نہیں دے رہا ہے، لہٰذا ، میں نے ایک دوسری جائے امان تلاش کرلی ہے"۔ (6)
ہبیرہ نجران میں مفرور کی صورت پناہ گزیں رہا۔ جب اسے اپنی شریک حیات کے قبولِ اسلام کی اطلاع ملی تو اس نے ام ہانی رضی اللہ عنہا کو مخاطب کرتے ہوئے کئی اشعار کہے جن کامفہوم یہ ہے کہ جب تم نے دین محمدی کی پیروی اختیار کرلی ہے اور مجھ سے رشتہ ناطہ توڑ لیا ہے، تو اب تم ایسی وادی میں رہو جس میں پانی کا نام ونشان تک نہ ہو۔ یعنی اب میں نے بھی تم سے سارے رشتے ناطے توڑ لئے ہیں اور میرے اور تمہارے درمیان ایک بے کراں وادیِ فراق حائل ہوگئی ہے۔ ہبیرہ کا انجام یہ ہوا کہ وہ شرک وکفر پر قائم رہتے ہوئے نجران ہی میں فوت ہوگیا۔سیدہ ام ہانی رضی اللہ عنہا سے کل ۴۶ احادیث کتبِ ستہ وغیرہ میں مروی ہیں۔ ان سے ان کے بیٹے جعدہ، ان کے پوتے یحیٰ اور ان کے ایک نواسہ ہارون کے علاوہ کئی کبار تابعین اورعلماء وزہاد نے روایت کی ہے جن میں عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ ، عطاء بن ابی رباح اور عروہ بن زبیر وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ (7)
ان کی روایت کردہ احادیث میں سے ایک یہ ہے کہ وہ کہتی ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺسے ارشاد باری تعالیٰ : "وتأتون فی نادیکم المنکر" "وہ راہ گیروں کو چھیڑتے اور ان کا مذاق بناتے تھے"۔ کی تفسیر وتوضیح دریافت کی تو آپ نے فرمایا:وہ راہ گیروں کو چھیڑتے اور ان کا مذاق بناتے تھے۔ یہی وہ برائی تھی جس کا ارتکاب وہ لوگ کھلے عام کرتے تھے۔(8)
یہ سورہ العنکبوت کی آیت (۲۹) کا ایک ٹکڑا ہے جس میں قومِ لوط کی برائیوں کا تذکرہ کیا گیا اور لوگوں کو ان کے انجام بد سے ڈرایا گیا ہے۔ مفسرین نے آیت مذکورہ کے اس ٹکڑے کی تفسیر میں یہ لکھا ہے کہ وہ لوگ راہ گیروں کو پکڑ لیتے اوران سے زبردستی عملِ لواطت انجام دینے کے بعد ان کا مال واسباب چھین لیا کرتے تھے جس کی وجہ سے سدوم ، عموریہ اور ان کے آس پاس کی آبادیوں سے دوسرے مقامات کے لوگوں نے گزرنا تک چھوڑ دیا تھا۔ اس قوم کی ایک برائی یہ بھی تھی کہ وہ مرغ بازی کے مقابلہ جات کاانعقاد کرتے تھے۔ افسوس کہ یہ برائی آج بھی بعض مسلمانوں میں بھی پائی جاتی ہے جس کی شناعت بیان کرنے کے لئے بس اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ اس کا موجد قومِ لوط ہے جسے اللہ تعالیٰ نے عذابِ مکرر سے فنا کردیاتھا۔
یہ تھے حیاتِ ام ہانی فاختہ بنت ابی طالب رضی اللہ عنہا کے گلشن میں گزارے گئے چند قیمتی لمحات جن سے معلوم ہوا کہ وہ اسلام کی عظیم ترین خواتین میں سے ایک تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں متعدد اوصاف حسنہ سے نواز رکھا تھا اور انہوں نے بھی اپنی زندگی کے لمحات راہِ الٰہی میں وقف کررکھے تھے۔ انہوں نے اگرچہ دیر سے اسلام قبول کیا لیکن اپنے قبولِ اسلام کے وقت سے لے کر ۵۰ہجری تک ، جب تک وہ بقیدِ حیات رہیں، تب تک اسلام کی ڈگر پر قائم ودائم رہیں۔ ان کی زندگی کی ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ قبولِ اسلام سے پہلے بھی وہ اللہ کے رسول ﷺکی تلاوتِ قرآنِ کریم اپنے گھر کی چھت پر چڑھ کر سنا کرتی تھی۔ (9)
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺنے انہیں پیغام نکاح دیا تو انہوں نے کہا کہ میں بال بچوں والی عورت ہوں اور نہیں چاہتی کہ وہ آپ کو پریشان کریں۔ یہ سن کر آپ ﷺ نے انہیں دوبارہ پیغام نکاح نہیں دیا اور فرمایا: ام ہانی اونٹ کی سواری کرنے والی تمام عورتوں سے بہتر ہے۔ یقیناًقریش کی عورتیں اپنے بال بچوں سے محبت وشفقت کے معاملے میں دنیا کی تمام عورتوں سے بڑھ کر ہیں۔ (10)
ان کی ایک فضیلت ومنقبت یہ بھی ہے کہ انہوں نے غزوۂ خیبر میں اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ شرکت کی اور فتح خیبر کے دن انہیں آپ ﷺنے چالیس وسق کھانے کی چیزیں (کھجور یا گیہوں وغیرہ ) عطا فرمائیں۔ (11)
اپنے انہیں فضائل ومناقب کی وجہ سے وہ تادمِ حیات صحابہ وتابعین اور علماء وزہاد کے نزدیک معزز ومحترم رہیں یہاں تک کہ داعیِ اجل کو لبیک کہا۔
اللہ تعالیٰ سیدہ ام ہانی رضی اللہ عنہا پر اپنے رحم وکرم کی بارش کرے کہ وہ ایسی خواتین میں سے تھیں جنہوں نے اپنی جانوں کا سودا جنت کے بدلے اللہ تعالیٰ سے کرلیا تھا-رضی اللہ عنہا وأرضاہا-
حواشی:
1۔(الکہف:18/6)
2۔(دیکھئے: زاد المعاد: 3/394)
3۔(دیکھئے: سنن الترمذی، حدیث: 474)
4۔(دیکھئے: السیرۃ الحلبیۃ:3/42)
5۔(دیکھئے: زاد المعاد: 3/121)
6۔(دیکھئے: اسدالغابۃ: 5/624)
7۔(دیکھئے: تہذیب الأسماء واللغات: 1/333)
8۔(دیکھئے: تفسیر الخازن مع حاشیۂ بغوی: 5/192)
9۔(دیکھئے:دلائل النبوۃ: 6/257)
10۔(دیکھئے: البدایۃ النہایۃ:5/2629)
11۔(دیکھئے: الطبقات: 8)
آپ کا ردعمل کیا ہے؟