خصائص بیت اللہ قرآن وحدیث کی روشنی میں
واف کی چارقسمیں ہیں: طواف قدوم جو تمام بیت اللہ کے اندر داخل ہونے والے کے لئے مستحب ہے۔طواف عمرہ جو عمرہ کے لئے رکن ہے۔ طواف افاضہ جو حج کا رکن ہے۔ طواف وداع جو حج کے واجبات میں شمار ہوتاہے۔
خصائص بیت اللہ قرآن وحدیث کی روشنی میں
" … آصف تنویر تیمی
دنیا کی سب سے پہلی مسجد کعبہ ہے،جس کی بنیادابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ مل کر رکھی،اللہ تعالی نے فرمایا:( وَاِذْ يَرْفَعُ اِبْرٰھٖمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَاِسْمٰعِيْلُ۰ۭ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا۰ۭ اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ)(1) ترجمہ:[ ابراہیم(علیہ السلام) اور اسماعیل (علیہ السلام) کعبہ کی بنیادیں اور دیواریں اٹھاتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے کہ ہمارے پروردگار! تو ہم سے قبول فرما، تو ہی سننے والا اور جاننے والا ہے]۔ اللہ تعالی نے خانہ کعبہ کی اولیت کے تعلق سے فرمایا: (اِنَّ اَوَّلَ بَيْتٍ وُّضِــعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِيْ بِبَكَّۃَ مُبٰرَكًا وَّھُدًى لِّـلْعٰلَمِيْنَ فِيْہِ اٰيٰتٌۢ بَيِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبْرٰہِيْمَ۰ۥۚ وَمَنْ دَخَلَہٗ كَانَ اٰمِنًا۰ۭ وَلِلہِ عَلَي النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْـتَـطَاعَ اِلَيْہِ سَبِيْلًا۰ۭ وَمَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللہَ غَنِىٌّ عَنِ الْعٰلَمِيْنَ۹۷)(2)ترجمہ:[ اللہ تعالی کا پہلا گھر جو لوگوں کے لئے مقرر کیا گیا ہے وہی ہے جو مکہ(شریف) میں ہے جو تمام دنیا کے لئے برکت وہدایت والا ہے۔ جس میں کھلی نشانیاں ہیں، مقام ابراہیم ہے، اس میں جو آجائے امن والا ہوجاتا ہے، اللہ تعالی نے ان لوگوں پر جو اس کی طرف راہ پاسکتے ہوں اس گھر کا حج فرض کردیا ہے۔ او رجو کوئی کفر کرے تو اللہ تعالی ( اس سے بلکہ) تمام دنیا سے بے پروا ہ ہے]
بیت اللہ شریف کی چند ایسی خصوصیتیں ہیں،جو دیگر دنیا کی مساجد کو حاصل نہیں ہیں۔ اس کی سب سے بڑی خصوصیت یہ کہ اس مسجد کا طواف(چکر) جائز ہے،بلکہ اجر وثواب کا باعث ہے۔خاص طور سے دوران حج او رعمرہ طواف رکن کی حیثیت رکھتا ہے۔ جو کوئی جان بوجھ کر طواف نہ کرے،اس کا حج او رعمرہ نہیں ہوسکتا۔
طواف کا معنی یہ ہے کہ آدمی خانہ کعبہ کا سات مرتبہ عبادت کی نیت سے چکر لگائے، جس کی ابتدا حجر اسود اور کعبہ بائیں جانب ہو۔
طواف کی مشروعیت کی قرآن وحدیث میں ڈھیر ساری دلیلیں ہیں،ان میں چند کو ذیل کے سطور میں نقل کیا جاتا ہے:
اللہ تعالی نے فرمایا:( وَاَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَاْتُوْكَ رِجَالًا وَّعَلٰي كُلِّ ضَامِرٍ يَّاْتِيْنَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيْقٍ۲۷ۙ لِّيَشْہَدُوْا مَنَافِعَ لَہُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللہِ فِيْٓ اَيَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰي مَا رَزَقَہُمْ مِّنْۢ بَہِيْمَۃِ الْاَنْعَامِ۰ۚ فَكُلُوْا مِنْہَا وَاَطْعِمُوا الْبَاۗىِٕسَ الْفَقِيْرَ۲۸ۡثُمَّ لْيَقْضُوْا تَفَثَہُمْ وَلْيُوْفُوْا نُذُوْرَہُمْ وَلْيَطَّوَّفُوْا بِالْبَيْتِ الْعَتِيْقِ۲۹)(3)
ترجمہ:[ اور لوگوں میں حج کی منادی کردے لوگ تیرے پاس پا پیادہ بھی آئیں گے اور دبلے پتلے اونٹوں پر بھی دور دراز کی تمام راہوں سے آئیں گے۔ تاکہ اپنے لئے فائدے حاصل کریں اور ان مقررہ دنوں میں اللہ کانام یادکریں ان چوپایوں پر جو پالتو ہیں۔ پس تم بھی کھاؤ اور بھوکے فقیروں کو بھی کھلاؤ۔ پھر وہ اپنا میل کچیل دور کریں اور اپنی نذریں پوری کریں اللہ کے قدیم گھر کا طواف کریں]
عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :"أنہ جاء الی الحجر الأسود وقبلہ وقال: انی لأعلم أنک حجر لا تضر ولا تنفع، ولولا أنی رأیت النبی صلی اللہ علیہ وسلم یقبلک ما قبلتک"(4)
وہ حجر اسود کے قریب آئے اور اسے بوسہ دیا،اور کہا: بے شک میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے، تو فائدہ پہنچا سکتا نہ نقصان، اگر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تمہیں بوسہ دیتے نہ دیکھتا تو میں تجھے بوسہ نہ دیتا]۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ طواف کرنے والوں کے لئے اگر ممکن ہوسکے تو حجر اسود کو بوسہ دے یہ مشروع اور مستحب عمل ہے۔ مگر اس کا بوسہ کسی خاص فائدہ اور نقصان کی نیت سے لینا گناہ ہے،اور اس سے شریعت نے منع فرمایا ہے۔اور اس لئے بھی کہ عبادات توقیفی ہیں،آدمی اپنی جانب سے کسی عبادت کورائج نہیں کرسکتا۔بلکہ شریعت سے جیسے ثابت ہیں،ویسے ہی عمل کرنا ضروری ہے۔
عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ:" أن أول شیء بدأ بہ حین قدم النبی صلی اللہ علیہ وسلم أنہ توضأ ثم طاف"(5) ترجمہ:[ نبی صلی اللہ علیہ وسلم (خانہ کعبہ) پہنچنے کے بعد وضوء کرکے طواف کیا]۔ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ سے مروی ہے کہ:"حتی اذا أتینا البیت معہ استلم الرکن فرمل ثلاثا ومشی أربعا"(6)ترجمہ:[ جب ہم لوگ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ بیت اللہ شریف پہنچے تو آپ نے رکن(یمانی) کو چھوا (اور پہلے تین چکر میں) رمل( دلکی چال) کیا،اور بقیہ چار میں عام انداز میں چلے]۔عبداللہ بن عمر سے مروی ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم حج یا عمر ہ میں طواف کرتے تو طواف قدوم کے تین چکر میں سعی اور بقیہ چاربلا سعی کے طواف کرتے،اس کے بعد دو رکعت نماز(ممکن ہو تو مقام ابراہیم ورنہ مسجد کے کسی حصہ میں) ادا کرتے اور اس کے بعد صفااور مروہ کی سعی کرتے۔(7)
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:" ویستحب للطائف أن یذکر اللہ تعالی ویدعوہ بما یشرع من الأدعیۃ والأذکار، وان قرأ سرا فلا بأس، ولیس للطواف ذکر محدود عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم لا بأمرہ ولا بقولہ ولا بتعلیمہ بل یدعو فیہ بسائر الأدعیۃ الشرعیۃ، وما یذکرہ کثیر من الناس من دعاء معین تحت المیزاب ونحو ذلک فلا أصل لہ"(8)ترجمہ:[ طواف کرنے والے کے مستحب ہے کہ (دوران طواف) مشروع اذکار وادعیہ پڑھے،اگر سری طور پر پڑھتا ہے تو بھی کوئی حرج نہیں، طواف کے لئے کوئی خاص اور محدود دعا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل اور تعلیمات سے منقول نہیں ہے، بلکہ ساری شرعی اور ماثور دعائیں پڑھی جاسکتی ہیں، بعض لوگ میزاب (جہاں سے کعبہ کی چھت کا پانی گرتا ہے) وغیرہ کے نیچے کی خاص دعا بیان کرتے ہیں جس کی کوئی اصلیت نہیں ہے]۔
طواف کی چارقسمیں ہیں: طواف قدوم جو تمام بیت اللہ کے اندر داخل ہونے والے کے لئے مستحب ہے۔طواف عمرہ جو عمرہ کے لئے رکن ہے۔ طواف افاضہ جو حج کا رکن ہے۔ طواف وداع جو حج کے واجبات میں شمار ہوتاہے۔
طواف کے چند آداب بھی ہیں،جن کو دوران طواف ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے،جیسے طواف پورے خشوع خضوع کے ساتھ طواف کیا جائے۔اپنے دل میں اللہ کی عظمت اور اس کا خوف محسوس کرے۔ نبیوں کی زندگی خاص طور سے ابراہیم علیہ السلام کے جذبہ توحید کو اپنے سینہ میں تازہ کرے۔ان چیزوں سے اپنی نگاہیں نیچی رکھے جو خشوع خضوع میں رکاوٹ بنتی ہوں، بہت سارے لوگ دوران طواف دھکم دھکی بھی کرتے نظر آتے ہیں،جو ایک مذموم اور غیر مشروع بلکہ ممنوع عمل ہے۔ایسے ہی طواف کے چند احکام بھی ہیں،جن کا جاننا ضروری ہے، تاکہ طواف شرعی طریقہ سے انجام پائے۔طواف ایک عبادت ہے،اس لئے شروع کرنے سے پہلے آدمی کو نیت کرنی چاہئے۔طواف کی صحت کے لئے باوضوہونا اور ستر پوشی کرنا بھی ضروری ہے۔ایسے ہی طواف کرنے والے کو چاہئے کہ طواف مسجد حرام کے اندرہی کرے،اس کے احاطے سے نکلے نہ دوران طواف حطیم میں داخل ہو۔
خانہ کعبہ کی دوسری بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں ایک وقت کی نماز کا ثواب ایک لاکھ کے برابر ملتا ہے۔ جیسا کہ نبی ﷺنے فرمایا:"صلاۃ فی مسجدی ہذا أفضل من ألف صلاۃ فیما سواہ الا المسجد الحرام وصلاۃ فی المسجد الحرام أفضل من مائۃالف صلاۃ"(9)ترجمہ:[میری مسجد(مسجد نبوی) میں ایک نماز کا ثواب ایک ہزار کے برابر ہے،سوائے خانہ کعبہ کے، اور خانہ کعبہ میں ایک وقت کا ثواب ایک لاکھ کے برابر ہے]۔ اس لئے جب بھی ہمیں موقع ملے، کثرت سے یہاں فرائض کے علاوہ سنن ونوافل کا اہتمام کرنا چاہئے،خاص طور سے حجاج ومعتمرین کے لئے سنہرا موقع ہوتا ہے کہ جب تک مکہ میں ان کا قیام رہے، کوشش کریں کہ باجماعت حرم میں نمازیں ادا کرسکیں،لیکن بہت سارے حجاج اپنا قیمتی وقت بازار گھومنے،مارکیٹنگ کرنے اور گپ شب کرنے میں لگادیتے ہیں۔
خانہ کعبہ کی تیسری فضیلت یہ ہے کہ دنیا کے سارے مسلمان کا قبلہ یہی کعبہ ہے، سب اپنی نماز میں اپنا منہ اسی گھر کی طرف کرتے ہیں۔جو کوئی اس کی طرف رخ کرکے نماز نہ ادا کرے اس کی نماز نہیں ہوگی۔شیخ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ تحویل قبلہ کے تعلق سے رقمطراز ہیں:’’جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکے سے ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے گئے تو ۱۶؍۱۷ مہینے تک بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے رہے، درآں حالیکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش تھی کہ خانہ کعبہ کی طرف ہی رخ کرکے نماز پڑھی جائے جو قبلہ ابراہیمی ہے۔ اس کے لئے آپ ﷺدعا بھی فرماتے اور باربار آسمان کی طرف نظر بھی اٹھاتے۔ بالآخر اللہ تعالی نے تحویل قبلہ کا حکم دے دیا، جس پر یہودیوں اور منافقین نے شور مچادیا، حالانکہ نماز اللہ کی ایک عبادت ہے اور عبادت میں عابد کو جس طرح حکم ہوتا ہے، اس طرح کرنے کا وہ پابند ہوتا ہے، اس لئے جس طرف اللہ نے رخ پھیردیا، اس طرف پھرجانا ضروری تھا۔ علاوہ ازیں جس اللہ کی عبادت کرنی ہے مشرق،مغرب ساری جہتیں اسی کی ہیں، اس لئے جہتوں کی کوئی اہمیت نہیں،ہر جہت میں اللہ تعالی کی عبادت ہوسکتی ہے،بشرط کہ اس جہت کو اختیار کرنے کا حکم اللہ نے دیا ہو۔ تحویل قبلہ کا یہ حکم نماز عصر کے وقت آیا اور عصر کی نماز خانہ کعبہ کی طرف رخ کرکے پڑھی گئی"(10)
اسی تحویل قبلہ کے تعلق سے اللہ تعالی نے فرمایا:( قد نری تقلب وجہک فی السماء فلنولینک قبلۃ ترضاہا فول وجہک شطر المسجد الحرام وحیث ما کنتم فولوا وجوہکم شطرہ وان الذین اوتوا الکتاب لیعلمون أنہ الحق من ربہم وما اللہ بغافل عما یعلمون)(11) ترجمہ:[ہم آپ کے چہرے کو باربار آسمان کی طرف اٹھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، اب ہم آپ کو اس قبلہ کی جانب متوجہ کریں گے جس سے آپ خوش ہوجائیں گے، آپ اپنا منہ مسجد حرام کی طرف پھیر لیں اور آپ جہاں کہیں ہوں اپنا منہ اسی طرف پھیرا کریں۔ اہل کتاب کو اس بات کے اللہ کی طرف سے برحق ہونے کا قطعی علم ہے اور اللہ تعالی ان اعمال سے غافل نہیں جو یہ کرتے ہیں]۔
خانہ کعبہ کی چوتھی خصوصیت یہ ہے کہ دنیا کے اطراف سے مسلمانان عبادت کی خاطر اس مسجد ،مسجد نبوی اور مسجد اقصی کا قصد کرسکتے ہیں،ان مساجد کے علاوہ دیگر مساجد کا قصد حرام ہے۔آپﷺنے فرمایا:"لا تشد الرحال الا الی ثلاثۃ مساجد،الی المسجد الحرام،ومسجدی ہذا والمسجد الأقصی"(12)ترجمہ:[(نیکی اور ثواب کی نیت سے)سوائے تین مساجد کے کسی مسجد کا سفر جائز نہیں،(اور یہ تینوں مسجدیں) مسجد حرام،میری مسجدی(مسجد نبوی) اور مسجد اقصی ہے]۔
لیکن بہت سارے مسلمان اس حکم شرعی سے بے خبر ہیں، وہ ان مساجد کے علاوہ دیگر بہت ساری مسجدوں، قبروں،مزاروں،درگاہوں کا بطور عبادت سفرکرتے،اور اسے باعث اجروثواب گردانتے ہیں،جو کہ درحقیقت گناہ بلکہ کبیرہ گناہ کا سبب ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد حدیثوں کے اندر قبرپرستی سے منع فرمایا ہے،بلکہ اس کو یہودونصاری کا طریقہ قراردیا ہے۔ اور قبر پرستی ہے،جس کی وجہ سے دنیا میں شرک کا وجود ہوا۔افسوس تو اس وقت ازحد ہوتا ہے جب بعض حجاج کرام اور معتمرین کو یہ کہتے ہوئے سنا جاتا ہے کہ حج کا مقصد ہی قبررسول(صلی اللہ علیہ وسلم) کی زیارت،(اور بقول ان کے) اور ان کا دیدار ہے۔
اللہ تعالی ہمارے دلوں میں بیت اللہ کی عظمت پیدا کرے، توحید کو سمجھنے اور اسے برتنے کی توفیق عطا فرمائے،اور شرک وبدعت سے تادم حیات محفوظ ومامون رکھے۔(آمین)
حواشی:
1۔[البقرۃ:1/127]
2۔ [آل عمران:3/96؍97]
3۔[ الحج:22/27۔29]
4۔[ رواہ مسلم:1270]
5۔[صحیح بخاری:1614، صحیح مسلم:1235]
6۔[صحیح مسلم 1218]
7۔۔[ بخاری ومسلم]
8۔[مجموع الفتاوی لشیخ الاسلام ابن تیمیۃ 26؍68]
9۔[ رواہ ابن ماجۃ 1/1404 وصححہ الألبانی فی صحیح ابن ماجۃ، واحمد وصححہ ابن حبان]
10۔[تفسر احسن البیان،ص57]
11۔[البقرۃ:1/44]
12۔[ رواہ مسلم، کتاب الحج، باب لا تشد الرحال الا الی ثلاثۃ مساجد،حدیث نمبر:1397]
آپ کا ردعمل کیا ہے؟