حب الوطنی کی آڑ میں وطن فروشی
اس میں کوئی شک نہیں کہ اخلاق حسنہ کے اثرات ازدواجی زندگی اور زوجین کے باہمی تعلقات میں نمایاں طور پر دکھائی دیتے ہیں جن جوڑے کے مابین اخلاقی قدروں کی رعایت کی جاتی ہے عام طور پر ان کا نباہ اعلی پیمانہ پر ہوتا ہے ، نہ ان میں کبھی نوک جھونک کی نوبت آتی ہے اور نہ ہی ایک دوسرے کی تحقیر کا معاملہ سامنے آتا ہے اگر کسی وجہ سے آپس میں کبھی تناؤ یا کشیدگی قائم ہو بھی جائے تو سنجیدگی اور معاملہ فہمی سے حل کر لیا جاتا ہے اور زندگی کی گاڑی اسی طرح حسن رفتاری سے اپنی منزل کی جانب رواں دواں رہتی ہے۔
حب الوطنی کی آڑ میں وطن فروشی
"…محمد شاہنواز ندوی
ہندوستانی جانچ ایجنسی دستوں کی یہ فطرت رہی ہے کہ جب کبھی ملک میں دہشت گردانہ حملے انجام دینے کی وجہ سے ریلوے اسٹیشن یا مذہبی مقامات میں بم بلاسٹ ہوا،اس کا سراکسی نہ کسی مسلم تنظیم یا ادارہ سے جوڑدیا ہے۔ اور اس دعوے کو سچ کرنے کے لیے چند بھولے بھالے مسلم نوجوانوں کی گرفتاری عمل میں لاکر دلیل پیش کرنے کی ناپاک کوشش کی ہے۔ اسی سوچ و فکر کی ترجمانی بی جے پی کے سابق وزیر داخلہ لال کرشن آڈوانی بھی کر چکے ہیں انہوں نے ڈنکے کی چوٹ پر یہ اعلان کیا تھا کہ ’’سارے مسلمان دہشت گرد نہیں ہیں لیکن جتنے بھی دہشت گردوں کی گرفتاری ہوتی ہے وہ سب کے سب مسلمان ہی ہوتے ہیں ۔ان کا یہ جملہ ایسا زہربھرا ہے کہ دہشت گردی کے معاملہ میں مسلمان کے سوا کوئی اور ملوث نہیں ہے۔ ان کا یہ حملہ صرف مسلمانوں پر نہیں بلکہ مسلمانوں کے ذریعہ تعلیمات اسلامی پر بالواسطہ ایک خطرناک حملہ ہے، در اصل اڈوانی جی یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ ایک مسلمان دہشت گردی سے اسی وقت جڑتا ہے جب تک کہ وہ پورے طور پر تعلیمات قرآنی پر عمل پیرا نہ ہو، اس کی تصدیق کے لئے علماء کرام کی گرفتاری کا عمل خود شاہد ہے، مسلمانوں کو کس کس انداز سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالا گیا کہنا مشکل ہے، ؟گجرات کا خونی منظر کسے یاد نہیں، ؟کس طرح وہاں کے مسلم معصوم بچوں کی گردنیں تلواروں کی نوک سے ہوا میں اچھالی گئیں؟ کس طرح حاملہ خواتین کا پیٹ چیر کر بچے کو مارا گیا،؟ حیوانیت کی کوئی ایسی شکل باقی نہیں رہ گئی تھی جسے ان ظالموں نے مسلمانوں کی جان لینے اور ان کے خون سے ہولی کھیلنے میں نہیں اختیار کی ہو۔ اس کے بعد جو کسر باقی رہ گئی تھی وہ بھی پوٹا قانون کے تحت گجرات کے مظلوم مسلمانوں کو جیل کے حوالہ کردیا، جو آج تک جیل کے تاریک ترین کمروں میں بند ہیں نہ ان کے خلاف کوئی آواز اٹھا سکتا ہے اور نہ کوئی ان کی رہائی کا سامان مہیا کرا سکتا ہے۔
جونپور کے رہنے والے خالدمجاہد پر الزام تھا کہ 2007ء میں یو پی کی مختلف عدالتوں میں ہوئے دھماکوں میں وہ ملوث تھے۔ 2013ء میں فیض آباد سے لکھنؤ جاتے ہوئے پولیس وین میں پراسرار انداز میں ان کی موت ہوگئی تھی۔ قابل ذکر ہے کہ خالد مجاہد کو یو پی اے ٹی ایس ٹیم دھماکوں کے الزام میں 22دسمبر 2007ء کو بارہ بنکی ریلوے اسٹیشن سے گرفتار کرکے ان کے پاس سے آر ڈی ایکس، ڈیٹونیٹرس جیسی دھماکہ خیز اشیاء برآمد کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ حالانکہ اس معاملہ کی تحقیقات کرنے والے جسٹس آر ڈی نمیش کمیشن کی رپورٹ میں پولیس اور اے ٹی ایس کے کردار پر ہی سوال کھڑے کرتے ہوئے بم دھماکوں کے الزام میں گرفتار طارق قاسمی اور خالد مجاہد کو بے قصور بتایا گیا تھا۔۔نثارالدین احمد کو 6دسمبر 1993کے بم دھماکوں کے سلسلے میں حیدرآباد پولس نے 15جنوری 1994 کو گلبرگہ کرناٹک سے اٹھایا تھا۔ 23 سال جیل میں رہنے کے بعد سپریم کورٹ نے انہیں تمام الزامات سے بری کرتے ہوئے رہا کردیا۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نثار نے بتایا کہ جب پولس نے انہیں اٹھایا تھا تو اس وقت ان کی عمرمحض 20 سال تھی اور وہ فارمیسی، سیکنڈ ایئر کے اسٹوڈنٹ تھے، 15 دنوں بعد ان کا امتحان تھا۔ کالج جاتے ہوئے راستے میں پولس نے ریوالور دکھا کر انہیں وین میں بٹھا لیا۔
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح کئی ایسے لوگ ہیں جن کی گرفتاری محض جھوٹے الزامات کی بنا پر ہوئی ہے، انہوں نے ایک لمبی مدت تک جیل میں دشوار گذار زندگی گذاری ہیں۔ لیکن اس پندرہ بیس سالہ زندگی جیل میں کاٹ کر رہائی ہونے کے بعد ان کی کھوئی زندگی واپس مل سکتی ہے جو محض بے گناہی کے سبب گزری تھی، اس دوران ان کے ساتھ نہ جانے کیا کیا بیت گیا، گھر میں کتنے لوگوں کی جانیں چلی گئیں، جنہیں مٹی دینے سے محروم ہوگئے، معاشی حالت کمزور ہوگئی، محنت مزدوری کرکے اپنے گھر بار کے اخراجات کی تکمیل کرتے تھے، جیل میں پڑے رہنے کی وجہ سے یہ کام بھی پورا ہونے سے رک گیا، بوڑھے ماں باپ کی مصیوبتوں کے سہارے تھے، یہ سہارا بھی ان سے چھین لیا گیا، جس وقت میں روزی روزگار کرکے زندگی بسانے کی کوشش کی جاتی ہے وہ سدا بہار زندگی کی جیل کے حوالہ ہوگئی تو کیا ان بے گناہوں کو حکومت مالی امداد کرکے ان کی تلافی کا سامان مہیا کریگی؟ کیا ان کی بے گناہی کے باوجود جیل میں کاٹی گئی سزا کی بھرپائی ہر دن و ماہ کے حساب سے جوڑ کر معاوضہ دیا جائیگا؟ہمارے سامنے بے گناہ عامر کی مثال ہے جس نے 14سال جیل میں کاٹے، جب بے گناہ ہوکر باہر آیا تو پورا گھر ختم ہو چکا تھا۔ ماں باپ مر چکے تھے۔ اس کی بے گناہی تو ثابت ہوگئی، لیکن اس کے لئے ذریعہ معاش کا کیا انتظام کیا گیا۔ کیا معاوضہ ملا۔ اسی طرح مفتی عبد القیوم اور ان کے دوسرے ساتھی بھی 2 سال قبل رہا ہوئے تھے، لیکن ان کو بھی کوئی معاوضہ نہیں ملا۔ اب مالیگاؤں بم دھماکے میں جو 9 لوگ باعزت بری ہوئے ہیں، ان میں سے ایک کی موت ہوچکی ہے۔ یعنی اب کل 8 لوگ ہیں۔ اب ان کی بازآبادکاری کے لئے ان کی گزر بسر کے لئے حکومت کیا انتظام کریگی؟ ان کی زندگی کے قیمتی سال تو کوئی واپس نہیں لاسکتا، لیکن کم سے کم ان کو اتنا معاوضہ ضرور ملنا چاہئے جس سے کہ ان کی باقی ماندہ زندگی سکون سے گزر سکے اور جو ان کے بچے اور فیملی بے سہارا ہوگئے ہیں، ان کو سنبھلنے کا موقع ملے۔ اس کے علاوہ جن پولیس والوں نے یا اے ٹی ایس نے ان پر الزامات لگائے ہیں، ان کو بھی ضرور سزا ملنی چاہئے۔ اے ٹی ایس کے اس وقت کے چیف بھی برابر کے گناہگار ہیں۔ اگر صحیح معنی میں عدلیہ انصاف کا ترازو قائم رکھنا چاہتی ہے تو انہیں یہ قدم اٹھانا ہوگا، ورنہ اتنے دنوں تک جیل میں بندھک بنائے رکھنا اور جب کوئی ٹھوس و مضبوط ثبوت نہیں ملے تو جیل سے رہا کردینا یہ سراسر ناانصافی ہے ہونا تو چاہئے تھا کہ جرم کے ثبوت کے بغیر ان کی گرفتاری نہیں ہوتی، اگر ہوبھی گئی تو چند دنوں میں ان کامعاملہ رفع دفع کر دیا جاتا، اس طرح زندگی کا بیش قیمت وقت جیل میں برباد کرانا یہ سمجھ سے بالا تر ہے۔
اب تک تو یہی دیکھا جارہا تھا کہ چاہے معاملہ پاکستان کو خفیہ جانکاری دینے کا ہو یا پھر داعش کی حمایت میں آکر ملک ہندستان میں جہاں تہاں دہشت پھیلانے کا ہو یا پھر دہشت گردی سے متعلق جتنی بھی کاروائی انجام پذیر ہوتی ہیں ان میں بالواسطہ یا بلا واسطہ صرف اور صرف مسلمانوں ہی کا ہاتھ ہے ، لیکن اس حقیقت سے پردہ اس وقت اٹھا جب ۱۰ فروری بروز جمعہ کو آئی ایس ایس کے جن گیارہ ایجنٹوں کی گرفتاری کا عمل سامنے آیا ہے ان میں سے ایک بھی مسلم نہیں ہے سب کے سب ہندوہونے کے ساتھ ساتھ بی جے پی اور بجرنگ دل سے جڑے ہوئے ہیں ، جن کا نام دھرو سکسینہ ہے ،اس بات کی گواہی سابق وزیر کانگریس دگ وجیئے سنگھ نے بھی اپنے ٹیوٹر کے ذریعہ دے چکے ہیں۔ اور بھوپال کے کئی ہندی اخباروں (پردیش ٹو ذے ،پتریکا نیوز،پردیش جن وارتاوغیرہ )کے پہلے صفحہ پر ان خبروں کی اشاعت ہوئی۔بھوپال، گوالیار، جبل پور اور ستنا اضلاع سے پی اے ٹی ایس نے 11 افراد کو گرفتار کیا ہے. جس میں دھرو سکسینہ بھی ہے. ان پر الزام ہے کہ فوج کی معلومات کو جمع کر یہ لوگ پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی کو بھیجا کرتے تھے، جس کے لئے انہوں نے باقاعدہ ٹیلی فون ایکسچینج بھی بنایا ہوا تھا.دھرو سکسینہ سمیت پکڑے گئے پانچوں افراد کو عدالت نے 15 دنوں کی عدالتی حراست میں بھیج دیا ہے، ان سب پر غداری کا مقدمہ چل رہا ہے. دھرو کے والدین کے مطابق ان کا بیٹا بی جے پی کی آئی ٹی سیل میں کنوینر تھا. دھرو کی ماں رجنی سکسینہ آٹی آئی کالج میں ٹریننگ آفیسر ہیں جبکہ والد اجے مہندر سکسینہ ریٹائر ہو چکے ہیں.وہیں بی جے پی اب اس پورے معاملے میں بیک فٹ پر نظر آ رہی ہے. جہاں ایک طرف بی جے پی کا کہنا ہے کہ دھرو سکسینہ کا پارٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے، وہیں دھرو کے پڑوسیوں کا کہنا ہے کہ دھرو بی جے پی رہنما کے طور پر پورے محلے میں جانا جاتا تھا۔ٹیم نے بھوپال، جبل پور، گوالیار اور ستنا سے گرفتار جاسوس آئی ایس آئی کو فوج کی خفیہ اطلاعات مہیا کراتے تھے. جاسوسی کے کام میں ٹیلی فون ایکسچینج اور اس کے کارکنوں کی مدد لی جا رہی تھی.بدلے میں پاکستان سے حوالہ کے ذریعے رقم پہنچائی جاتی تھی. یہ رقم ستنا کا باشندہ بلرام سنگھ کے ذریعہ ریاست میں پھیلے پورے نیٹ ورک تک پہنچتی تھی. یہ انکشاف اے ٹی ایس آئی جی سنجیو شمی نے جمعرات کو میڈیا کے سامنے کیا.یہی وہ بھوپال ہے جہاں سیمی کے آٹھ مسلم نوجوانوں کو ملک میں دہشت پھیلانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اور جب ان کی رہائی معاملہ قریب آتا گیا ،ان کی بے گناہی سامنے آنے لگی تو جیل سے راہ فراری کے جھوٹے الزام میں تمام کو ایک ساتھ انکاونٹر کرکے شہید کر دیا۔ وہ منظر بھی نہایت دلدوز اور رونگٹے کھڑا کردینے والا تھا ، جس سے دلبرداشتہ ہو کر راقم الحروف نے (بھوپال انکاونٹر حقیقت یا فسانہ ) کے نام پر آرٹیکل لکھا تھا۔ خدا نے ان کی بے گناہی اس طرح ثابت کر دی کہ اسی سرزمین سے پاکستان کو خفیہ معلومات فراہم کرنے والے بی جے پی اور بجرنگ دل سے جڑے جاسوسوں کی گرفتاری کا سامان مہیا کرادیا۔
بلرام جو اس میدان کا شہسوار کہلاتا ہے اس کے پاس 60 بینک اکاؤنٹس کا ریکارڈ، بڑی تعداد میں سم، موبائل فون اور فرضی ٹیلی فون ایکسچینج سسٹم برآمد ہوئے ہیں. پکڑے گئے چھ افراد کو جمعرات عدالت میں پیش کیے گئے، جہاں سے انہیں اے ٹی ایس ریمانڈ پر بھیج دیا گیا.جن لوگوں کو پکڑا گیا ہے ان میں بھوپال سے تین، گوالیار سے پانچ، جبل پور سے دو اور ستنا سے تین افراد شامل ہیں. ان میں سے چھ بلرام سنگھ (ستنا)، کش پنڈت، جتیندر ٹھاکر، ریتیش، جتیندر یادو اور ترلوک سنگھ کو گرفتار کر عدالت میں پیش کیا گیا. عدالت نے بلرام کو 14 فروری تک اور دیگر پانچ کو 12 فروری تک پولیس ریمانڈ پر رکھے جانے کا فیصلہ طیے کیا تھا۔ستنا کے قریب سنگرام علاقے کی کالونی میں کرائے کے مکان سے بلرام سنگھ ٹیرر فنڈنگ کے نیٹ ورک کو منظم کر رہا تھا. اس نے باقاعدہ کمرے میں ایکسچینج بھی لگا رکھا تھا. اے ٹی ایس کی گرفت میں آئے بلرام نے کئی اہم جانکاریاں دی ہیں. جس کے بعد اس سے منسلک نیٹ ورک کے لیے کھنگال رہی اے ٹی ایس کی ٹیم نے دو اور مشتبہ افراد،راجیش جیسوال اور راجیو کو بھی حراست میں لے لیا ہے.آئی جی اے ٹی ایس سنجیو شمی نے بتایا، جموں میں پکڑے گئے ستوندر اور دادو کو ستنا کا بلرام پیسہ پہونچاتا تھا. اس کے مختلف اکاؤنٹس میں یہ رقم پاکستان سے بھیجی جاتی تھی. اسی کام کے لئے بہت سے اکاؤنٹ کھول رکھے تھے. وہ پاکستان کے لئے معلومات جمع کرنے والے گروہ کے دیگر ارکان کو ٹرانسفر کرکے رقم پہنچاتا تھا. آئی ایس آئی کے رابطے میں وہ اسی وجہ سے تھا۔
جموں میں ستوندر اور دادو کے پکڑے جانے کے بعد اتر پردیش، دہلی اور مدھیہ پردیش سے جڑے تار مرکزی خفیہ ایجنسی، جموں پولیس اور اتر پردیش کی اے ٹی ایس سے ملی اطلاعات کی بنیاد پر اے ٹی ایس نے جانچ پڑتال کی اور شہروں سے ان لوگوں کو اٹھا لیا. شمی نے بتایا کہ ستوندر اور دادو کے ذریعہ پاکستان کے ہینڈلرس کے کہنے پر فوجی اطلاعات جمع کی جا رہی تھی.ساتھ ہی پلوں، کیمپوں وغیرہ کی تصاویر، معلومات، فوج اور مرکزی سیکورٹی فورسز کی گاڑیوں کی معلومات جٹاکر پاکستان بھیجی جا رہی تھی.پردیش میں پاکستانی ایجنٹس کے تقریبا ڈیڑھ درجن سے زیادہ غیر قانونی ٹیلی فون ایکسچینج چل رہے ہیں. یہاں سے روزانہ سینکڑوں غیر ملکی کال لوکل کالز میں بدل جاتے ہیں. ذرائع کے مطابق ملک بھر میں ان کی تعداد 98 سے زیادہ ہے۔تحقیقات میں انکشاف کے بعد ملک کی خفیہ ایجنسیاں الرٹ ہو گئی ہیں.
بڑے افسوس کی بات ہے کہ ایک طرف تو وزیر اعظم نریندر مودی دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے بیرون ملک جاجا کر وہاں کے سربراہان اور صدر سے میٹنگ کرتے ہیں ، اور دوسری طرف یہ دیش بھکتی کا نعرہ لگانے والے بی جے پی و بجرنگ دل سے جڑے پاکستان کی جاسوسی کرنے والے غدار وطن اپنے ملک کی خفیہ معلومات ملک کے دشمنوں کو فراہم کر رہے ہیں، ان ضمیر فروشوں اور وطن فروشوں کو شرم آنی چاہئے کہ کس طرح ملک ہندستان کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا کام نہایت ہی شاطرانہ انداز میں کر رہے ہیں۔ کیا انہیں اس بات کا اندازہ نہیں کہ بی ایس ایف کے نوجوان کس طرح اپنی ہر خوشی کو قربان کرکے ملک کے سوا سو کڑور باشندوں کی خوشی کی حفاظت کر رہے ہیں، اور وقت پڑنے پر اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ملک کی سا لمیت کی بقا و تحفظ کی خاطر ہر آن اپنا سینہ تانے دشمن کی آنکھوں سے آنکھ ملائے رہتے ہیں۔ تف ہو ائے دیش بھکتی کا نعرہ لگانے والوں پر ۔ تم نے وندے ماترم کا نعر نہ لگانے والوں کو غدار وطن کہہ دیا، تم نے دیش بھکتی کا مظاہرہ دکھاتے ہوئے کشمیر میں کئی مہینوں تک کرفیو لگا کر وہاں کے باشندوں کی زندگی کو اجیرن بنا دیا ، سیکڑوں کی جانیں لے لیں۔ مسلمانوں کو اسلامی وضع قطع میں دیکھتے ہی تمہارے بدن میں دیش بھکتی کا خون کھول اٹھتا جاتا ہے ،کیاپاکستان کی جاسوسی کرنے میں تمہیں دیش بھکتی یاد نہیں رہی؟کیا یہاں کی خفیہ معلومات کو آئی ایس آئی کو دیتے اور بدلے میں ان سے موٹی موٹی رقم لیتے وقت اپنی دیش بھکتی یاد نہیں آئی ؟آخر تمہاری غیرت کہاں چلی گئی ؟، دہشت گردی کا صفایا کرنا بی جے پی کے اہم ایجنڈوں میں سے ایک ہے ، اسی دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے لئے نوٹ بندی کا جوکھم ڈال کر پورے ملک میں ایمرجنسی کی حالت پیدا کردی گئی ، جس کے پاداش میں وہ تمام مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا جس کا کسی نے خواب بھی نہیں دیکھا تھا، کیسے دیکھتے دیکھتے نوٹ کی قلت سے پریشان ہوکر سیکڑوں لوگوں نے اپنی جانیں گنواں دی۔
کیا تمہیں وہ دن یاد نہیں جب شہر گوا میں ہونے والی برکس سربراہی کانفرنس میں اپنے خطاب کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی نےچیخ چیخ کر کہا تھا، ’’ہمارے علاقے میں، امن، سلامتی اور ترقی کے لیے دہشت گردی ایک شدید خطرہ ہے۔‘‘ پاکستان کا نام لیے بغیرنریندر مودی نے مزید کہا تھا، ’’بدقسمتی سے دہشت گردی کا گڑھ بھارت کے ہمسائے میں ہے۔ دنیا بھر میں پھیلے دہشت گردی کرنے والوں کے اس گڑھ کے ساتھ رابطے ہیں۔ اور ایک بار پھر ہمیں بطور برکس اس کے خلاف متحدہ ہو کر کھڑے ہونے اور عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ برکس کو اس خطرے کے خلاف یک زبان ہو کر بولنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ تیزی سے ترقی کرتی اقوام برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ کے کلب کو اس ملک کی شدید مذمت کرنی چاہیے۔کاش وزیر اعظم کو پتہ ہوتا کہ یہ دنیا بھر میں دہشت گردی کرنے والوں کے اس گڑھ سے رابطے میں رہنے والے بھوپال ،گوالیاراور جبل پور کے یہ جاسوس ہیں، یہ تو صرف پکڑے گئے ہیں نہ جانے ان کی طرح کتنے ایسے دہشت گرد ملک کو دشمنوں کے ہاتھ فروخت کر رہے ہیں ان کا اندازہ بھی انہی کو ہے۔
بہت دن سے مسلمانوں کو دہشت گردی کے جھوٹے الزام میں جیل کی سزائیں کاٹنی پڑی،لیکن اب حقیقت سے پردہ اٹھ چکا ہے، یہ بات طے ہو چکی ہے کہ ہمارے ملک میں جتنے بھی دہشت گردانہ حملے ہوئے اس میں کسی مسلم کا ہاتھ نہیں ہے،مسلمانوں سے حد درجہ نفرت و عداوت رکھنے والی انتہاء پسند تنظیموں کی کارستانی تھی جس کے دام پھنس کر ان بے گناہوں نے اپنا قیمتی وقت جیل میں کاٹا ۔ لیکن آج کے بعد ہر اس شخص کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر بات کیجئے جو مسلمانوں کو غدار وطن کہنے کی جرئت کریگا، اب یہ مکاری و عیاری کا بازار زیادہ دن نہیں چلے گا۔
آپ کا ردعمل کیا ہے؟