تاثرات
بچو! آپ مدرسہ کے طالب علم ہیں اور آپ کے زیادہ ہیں اور سننے والے کم ہیں حصول تعلیم یعنی فراغت کے بعد آپ کو اپنی زندگی شروع کرنی ہے۔ آپ سیاست میں جائیں آپ تعلیم کے میدان میں چائیں یا دوسرے شعبہ میں جاے اس طرح کی مجالس میں آپ کا بیٹھنا اور آپ کا سننا یہ آپ کے لیے کار گر ہوگا وہ اس لیے کہ نہیں کہیں پر ایسے مشکلات سامنے آغے ہیں کہ انسان گھیرا جاتا ہے۔ اور پھر سوچتا ہے کہ آگے کوئی راستہ نہیں ہے۔ تو جب اس طرح کی شخصیت ایسے لوگ دنیا میں نہیں رہے ان کی خدمات کو جب ہم سنتے ہیں تو ہمیں اندر سے طاقت ملتی ہے ۔ بہت بہت شکریہ مطیع الرحمن صاجب کا جو ڈائریکٹر ہیں آپ کے مدرسہ کے ۔ انہوں نے اس جلسہ کا انعقاد کیا ہے ۔
"محمد شاہنواز ندوی
اللہ کا بہت بڑا احسان ہےکہ تعزیت کے جلسہ میں اس نے مجھے شریک ہونے کا موقع عنایت کیا ، آج کا عنوان" الحاج محمد تسلیم الدین رحمہ اللہ کی حیات وخدمات" ہے۔ حیات وخدمات پر تمام مقالہ نگار ان نے روشنی ڈالی ہیں چاہتا ہوں کہ کوئي ایک حصہ پکر لوں ۔ لہذا میں ان کی خدمت پر بات کرونگا۔
بچو! آپ مدرسہ کے طالب علم ہیں اور آپ کے زیادہ ہیں اور سننے والے کم ہیں حصول تعلیم یعنی فراغت کے بعد آپ کو اپنی زندگی شروع کرنی ہے۔ آپ سیاست میں جائیں آپ تعلیم کے میدان میں چائیں یا دوسرے شعبہ میں جاے اس طرح کی مجالس میں آپ کا بیٹھنا اور آپ کا سننا یہ آپ کے لیے کار گر ہوگا وہ اس لیے کہ نہیں کہیں پر ایسے مشکلات سامنے آغے ہیں کہ انسان گھیرا جاتا ہے۔ اور پھر سوچتا ہے کہ آگے کوئی راستہ نہیں ہے۔ تو جب اس طرح کی شخصیت ایسے لوگ دنیا میں نہیں رہے ان کی خدمات کو جب ہم سنتے ہیں تو ہمیں اندر سے طاقت ملتی ہے ۔ بہت بہت شکریہ مطیع الرحمن صاجب کا جو ڈائریکٹر ہیں آپ کے مدرسہ کے ۔ انہوں نے اس جلسہ کا انعقاد کیا ہے ۔
محترم حضرات اور بچو! جس شخص کے بارے میں ابھی تذکرہ چل رہا ہے یہاں جو گفتگو ہورہی ہے ایک چیز پر روشنی ڈالنا ضروری ہے۔ کہ جناب الحاج محمد تسلیم الدین صاحب کا انتقال ہوگیا ان کے والد کا قتل ہوا تھا اور آپ کو سن کر بڑا تعجب ہوگا کا جو قتل کرنے والا آدمی فیضو نام کا تھا تسلیم صاحب نےاس سے کوئی دشمنی نہیں رکھی ۔ بلکہ اس کے گھروں آنا جانا شروع کرتے تھے، عید بقرہ عید اور دوسرے موقع میں ان کے گھر جاتے اور اس فیضو کی ہمدردی کا اظہار کرتے تھے اور مالی تعاون بھی کرتے تھے ۔ یہ معمولی بات نہیں ہے۔ اس کا ن سے سن کر اس کان سے نکال دینا آسان ہے لیکن عمل میں لانا یہ بہت بری بات ہے۔ اس خوبی کے مالک تھے تسلیم صاحب خدمات کے معاملہ آتے تو ابھی مدرسہ توحید ایجو کیشنل ٹرسٹ کے اوپر جو مقالہ پیش کیا گیاکہ یہاں کہ مین گیٹ کو دیکھ لیجئے ۔ چہار دیواری کو دیکھ لیجئے۔ انجمن اسلامیہ کو دیکھ لیجئے دوسرے مدارس کو دیکھ لیجغے اس طرح ہر جگہ تسلیم الدین صاحب کا کچھ نہ کچھ کام نظر آئے گا۔
تعلیم کے میدان میں آپ ماڑواڑی کالج کو لے لیجئے آپ نہرو کالج کو لے لیجئے یا رشن شاہ مہیلا کالج کو لے لیجئے اس طرح کے تمام کالج میں آپ جہاں جائیں گے وہاں تسلیم الدین کے کچھ نہ کچھ کام کو پائیں گے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہےکہ علم سے تسلیم الدین صاحب کو بڑی دلچسپی تھی ۔ یہ میں صرف کشن گنج کی بات کرہا ہوں اگر اس سے آگے بڑھ کر ارریا ضلع کی بات کروں تو لمبی داستان ہو جائے گی ۔ پورنیہ لے چلو لمبی گفتگو ہو جائے گی اور وقت بھی زیادہ لگے گا اس لیے میں بہت مختصر میں آپ کے سامنے بات رکھنا چاہتا ہوں ۔ ریل کے میدان میں آئے جو ریل کہ زمان سے ہے۔ لیکن ریل میں جو ترقی لوگوں نے دیکھا ہے وہ تسلیم صاحب کے زمانے میں دیکھا ہے ۔ آج بھی ارریا سے جوقگبنی نئي ریل لائن کی بات آتی ہے تو نوشاد صاحب کے گھر کے پاس چلے جاغے تو آپ کو ایک (ہیگنگ)پل یعنی لٹکا ہوا پل نظر آئے گا پل بن کر تیار ہے۔ زمین حوالگی کا کام کچھ ہوا ہے اور کچھ رکا ہوا ہے۔ اور وہ نئی ریل لائن کو بننا ہے کشن گنج آپ کا اسٹیشن ہے لیکن آج تک جنکشن نہیں ہوسکا تسلیم صاحب نے دھیان نہیں دیا کہ اس کو جنکشن بنانا چاہئے ۔ایک نئی ریل لائن یہاں سے کھول دیجئے جنکشن ہو جائےگا کسی نے نہیں دھیان دیا ۔
کشن گنج میں اس شہر کا نام بدلنے کی خوب کوشش ہوئی ۔ یہاں تسلیم صاحب سے پہلے کافی سیاست داں آتے میں کسی پر تنقید نہیں کرہا ہوں۔ لیکن ایک ذہانت کی بات میں کررہا ہوں کہ تسلیم صاحب کتنا دور اندیش آدمی تھے یہاں کا نام ڈاکو پاڑا۔ نام ہی سے احساس کمتری ۔ یہاں کا نام نٹوا پاڑا۔ نام ہی سے احساس کمتری۔ یہاں کا نام چھانئی باڑی ان چیزوں کو انہوں نے محسوس کیا کہ نہیں جگہوں کا نام بدلنا چاہئے ۔اوراچھا نام رکھنا چاہئے ڈاکو پاڑا کا نام بدل کر رحمت پاڑ رکھ دیا ۔ نٹوا پاڑا کی جگہ نور پورپاڑا رکھ دیا ۔ نہیں یہ کچھ رکھ دیا کہیں پہ ہمارے بڑے سیاسی لوگوں کے نام پر نام رکھ دیا ۔ کشن گنج شہر کے چوک چوراہوں کا نام انہوں نے بدل دیا ۔ کہ کیا ضروری ہےکہ لائن چوڑپٹی سوری محلہ سب کا نام بدل دیا ۔ تو یہ خدمات۔ کیونکہ وقت کی کمی کی وجہ سے میں تمام باتوں کو بہت مختصر کررہا ہوں۔ ان کی خدمات پر زیادہ سے زیادہ روشنی ڈالی جاتے میرا خیال یہ ہےکہ مجھ جیسے ناچیز بھی کم سے کم دو تین گھنٹہ تک تسلیم صاحب کے خدمات پر گفتگو کرسکتا ہے۔اس لیے میں زیادہ کچھ نہ کہتے ہوئے وقت کا لحاظ رکھتے ہوئے تمام لوگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ خاص طور سے مولانا مطیع الرحمن کا شکر یہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے ایک اچھے عنوان پر لوگوں کو جوڑے کا کام کیا ہے۔ اور اس طرح کا کام تو ہوتا ہے اس ے سماج کو سننے والے کو طاقت ملتی ہے۔
بہت بہت شکریہ۔
جمشید عالم:
آج الحاج تسلیم الدین صاحب مرحوم کی یاد میں اس محفل کو قائم کیا گیا ہے اللہ تعالی نے ان کو جب پیدا کیا تو جتنے بھی خدمات لینے تھے ان کو مٹھی میں بند کر کے بھیجا انہوں نے تقریبا 55 سال خدمات انجام دیئے اور جب دنیا سے رخصت ہوئے تو ہم لوگوں کوبے سہارا چھوڑ کے گئے اور انہوں نے بتا دیا کہ ہم تو مٹھی بند کر آئے تھے آج خالی جارہے ہیں میرے پاس کچھ نہیں ہے لیکن میں نے جو اچھے کام کئے میں وہی لے کے جارہا ہوں۔اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ یہ جہں دولت کمانے ک نہیں ہے یہاں جو لوگ آتے ہیں خدمات کرتے ہیں، لوگوں کو اچھی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس کے حق میں کام کرتے ہیں وہ ہمارا اصل کرب ہے۔ اگر ہم صحیح خدمت کریں گے تو لوگ ہمیں یاد کریں گے یہی سندیش انہوں نے ہمیں دیا ۔ کشن گنج کے لوگوں سے انہیں پیار تھا اور لوگوں نے بھی اسکے جنازے اور کفن دفن میں شریک ہو کر اس کے پیار کا اظہار کیا۔
ترلوک چند جین:
الحاج تسلیم الدین صاحب کے سبھا میں سبھی سمانیت اتیتھی گن اور اس مدرسے کے سبھی چھاتر چھاتراؤں اور شہر کے سبھی سمانیت ناگرک گن ہم لوگ آ جس ہستی سبھا منا رہے ہیں میں سمجھتا ہوں میرا جیون راجنیتک شروعا ت اس شخص سے ہوئی تھی اور جتنا نزدیک سے میں ان کو جانتا ہوں ان کی جیون سے السنک ہو ان کی سماجی سے لسنک ہو، ان کے رہنے سہنے کے جیون کو کو شاید آپ لوگ ان کو زیادہ جانتے ہوں لیکن میں جانتا ہوں میں ان کو راجنیتک نہیں سمجھتا تھا راجنیتک پارٹی سے لڑتے ضرور تھے لیکن کبھی راجنتک نہیں کی بہت سے واقعات ان کے ویسے میں ہے لیکن باتیں کرنے کا وقت نہیں ہے انہوں نے سیمانچل میں کیا کیا ؟ دیش کے لیے کیا کیا ؟ سماج کے لیے کیا کیا ؟ لیکن ایک شخص اس کی خوبی یہی تھی کہ راجنتک مت کرو۔ عبادت سمجھ کر مانو کی سوا کرو۔ دھرم ہے سوا کرنا ، راجنتک نہیں راجتنک الگ ہوتی ہے ۔ لیکن بیکتگت الگ چیز ہے میرا لگاؤ ان سے جب تک ان کی سانس تب تک میری سانس جڑا تھا ۔
میرا آدمی وہاں تھا میں ان کی پل پل خبر لے رہا تھا سیمانچل میں لگ رہا ہے ایک بھونچال اگیا ہے۔ راجنتک میں سماجیک میں ایک ایسا بیکتی چلا گیا کہ لوگوں کو لگ رہا ہےکہ اب کس کے پاس جائیں کوئی کانگریس پارٹی کا ہے کوئي جے ڈی یو کا ہے کوئی بھاجپا کا ہے کوئی آرجے ڈی کا ایک ایسا بیکتی نہیں ہے کہ ہم اپنا دکھ درد کے لیے جائیں وہ ایسا شخص تھا کہ راجنیتی نہیں کرتا تھا کوئي بھی اگر دکھ درد لے کر گیا ہے چاہے وہ کسی کا پارٹی کا ہو وہ انسان دیکھتا تھا پارٹی نہیں دیکھتے تھے ان کی خاصیت یہ ہیکہ عمر میں بھی انکی یادداشت کو میں نے دیکھا کہ لڑکا کس گاؤں کا ہےکس شہر کا ہے کس بستی کا ہے س کا نام کیا ہے اس عمر میں بھی یاد تھا کبھی کسی کو تلکلیف ہوئی ہے چاہے شادی ہو بیمار ہو اس عمر میں ہو گاڑی سے چال جاتے تھے ۔ سوا بھاونا ان کا مقصد تھی جن کی زندگی 55سال تک راجتک گزری ۔ ہم لوگ دیکھتے ہیں آج کل واٹس آپ میں نیوز میں کسی نے دو سال ایم ایل اے رہے تھے پانچ گنا سمپتی پڑھی گئی ایک سال ایم ایل اے رہے سوگنا سمپتی بڑھ گئی ۔
لیکن تسلیم الدین وہ فقیر ہے جیسے آئے تھے ویسے چلے گئے خالی ہاتھ آئے تھے خالی ہاتھ چلے گئے جو آدمی 55سال راجنتک میں زندگی گزارے ان کے پاس اٹوٹ بھنڈار ہونا چاہئے لیکن پچھلے بکتا نے کہا کہ جب الماری کھولا گیا تو کچھ نہیں ملا اس کے پاس پیشہ اگیا اور اگر غریب اسی وقت اگیا تو اسی وقت نکال کر دیتے میں نے دیکھا اپنی آنکھوں سے پیشہ وہ رکھ نہیں پاتے تھے 55سال کی زندگی میں جو فقیر بن کر رہا وہ علاقے کا فقیر تھا ہم اس کو راجنیتی نہیں مانتے میں جس دن جنازے میں گیا ایسا جنازہ میں آج تک نہیں دیکھا بھاگیہ مثالی تھے اس بیکتی کے جنازے میں جہاں پانچ لاکھ آدمی موجود تھے بعض کہتے ہیں دو لاکھ آدمی تھے کہیں جگہ نہیں تھی کوئی سڑک خالی نہیں تھا ۔ کیا تھا یہ ؟ کتنے ایم ایل اے مرے ہیں کتنے ایم پی مرے ہیں ہم لوگوں نے نہیں دیکھا مہاتما گاندھی کے زمانے ضرور ایسے بھیڑ ہوئی ہوگی اس کے میں ایسی بھیڑ ہندوستان میں میں نے نہیں دیکھی، یہ ایک جذبہ تھا ۔
دوستو! ان کے ادھورے کاموں کو ان کےجذبہ کو بہت سے کام ان کے فائلوں میں پڑے ہیں راجنتک کا میں راجنیتی لوگ کریں گے ۔ ہندومسلم کبھی بھی ان میں نہیں دیکھا گنگا جمنا تہذیب کے اصلی دہنی اگر کوئی تھے توتسلیم الدین صاحب تھے ، ان کے پاس کوئی ہندو نہیں تھا اور نہ مسلم تھا انسان تھا میں کٹر ہندوہوں میں اپنا جین دھر م پالن کرتا ہوں لیکن مجھ سے زیادہ نزدیکی آپ لوگ نہیں رہے ہوں گے اور ان کو کبھی بھید بھاؤ نہیں لگا مجھے میں اسے ایک بھگوان کا روپ دیتا ہوں۔
آپ کا ردعمل کیا ہے؟