اللہ کی رحمتوں کی قدر کریں
ے لوگو! میں اپنے آپ کو اورآپ سب کو اللہ تعالى کا تقوى اختیار کرنے کی نصیحت کرتا ہوں، آپ سب- اللہ آپ پر رحم فرمائے- اللہ تعالى کا تقوى اختیار کریں ، اللہ آپ سے کیے گئے وعدہ کو پورا فرمائےگا، اس کا فرمان ہے: "وَمَنْ يَّـتَّقِ اللہَ يَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا۲ۙ وَّيَرْزُقْہُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ" "اور جو شخص اللہ کا تقوى اختیار کرےگا، وہ اس کے لیے (مشکل سے) نکلنے کا راستہ پیدا کردےگا اور اسے ایسی جگہ سے روزی دےگا جہاں سے اس کو گمان بھی نہ ہوگا. "(1)
اللہ کی رحمتوں کی قدر کریں
"… فضیلۃ الشیخ صالح بن حمید/حفظہ اللہ ترجمہ:ڈاکٹر حشر الدین
خطبۂ اول:
ساری تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، جو آسمان کو بلند کرنے اور بنانے والا ہے اور زمین کوبچھانے اور ہموار کرنے والا ہے، جو زمین میں داخل ہونے والی اور اس سے نکلنے والی ہر چیز کو جانتاہے اور جو آسمان سے اترنے والی اور اس کی طرف چڑھنے والی ہر چیز کا علم رکھتا ہے،میں اسی پاک ذات کی حمد بیان کرتا ہوں اور اس کی بہت وبے شمار نعمتوں پر اس کا شکر بجالاتا ہوں.
میں شہادت دیتا ہوں کہ کوئی معبودِ برحق نہیں سوائے اللہ کے، جو تنہا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، ایسی شہادتِ حق ویقین جو اپنے کہنے والے کو قیامت کے دن نجات دلائےگی، اور میں شہادت دیتا ہوں کہ ہمارے سردار اور نبی محمد ﷺ اللہ کے بندہ اور اس کے رسول ہیں، جو بشارت دینے والے ، ڈرانے والے اور روشن چراغ ہیں، آپ نے اپنی امت کو حق کی دعوت دی اور اس کی رہنمائی کی، جب تک گردشِ شب وروز جاری رہے۔ اللہ تعالى کا درود وسلام اور اس کی برکت نازل ہو آپ پر، آپ کے نیک پاکباز اہل خانہ پر اور آپ کے روشن مبارک صحابہ، امت کی چنیدہ ونیک جماعت پر ، تابعین پر اور اچھی طرح سے ان کی پیروی کرنے والوں پر.
اما بعد:
اے لوگو! میں اپنے آپ کو اورآپ سب کو اللہ تعالى کا تقوى اختیار کرنے کی نصیحت کرتا ہوں، آپ سب- اللہ آپ پر رحم فرمائے- اللہ تعالى کا تقوى اختیار کریں ، اللہ آپ سے کیے گئے وعدہ کو پورا فرمائےگا، اس کا فرمان ہے: "وَمَنْ يَّـتَّقِ اللہَ يَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا۲ۙ وَّيَرْزُقْہُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ"
"اور جو شخص اللہ کا تقوى اختیار کرےگا، وہ اس کے لیے (مشکل سے) نکلنے کا راستہ پیدا کردےگا اور اسے ایسی جگہ سے روزی دےگا جہاں سے اس کو گمان بھی نہ ہوگا. "(1)
"وَمَنْ يَّتَّقِ اللہَ يَجْعَلْ لَّہٗ مِنْ اَمْرِہٖ يُسْرًا"
"اور جو شخص اللہ کا تقوى اختیار کرےگا ، وہ اس کے لیے اس کے معاملہ میں آسانی کردےگا".(2)
"وَمَنْ يَّتَّقِ اللہَ يُكَفِّرْ عَنْہُ سَـيِّاٰتِہٖ وَيُعْظِمْ لَہٗٓ اَجْرًا"
"اور جو شخص اللہ کا تقوى اختیار کرے گا، وہ اس کے گناہوں کو بخش دےگا اور اس کا اجر عظیم کردے گا".(3)
آدمی اپنے تقوى سے طاقتور ہے، اپنی قناعت سے مالدار ہے، اپنے تواضع سے بڑا ہے اور اپنے اخلاق سے بلند ہے.
دو چیزیں نفع بخش ہوتی ہیں، وسیع الظرفی اور حسن اخلاق.
دو چیزیں بلند کرتی ہیں: تواضع اور لوگوں کی ضروریات پوری کرنا اور دو چیزیں بلا ومصیبت دور کرتی ہیں: سچائی اور صلہ رحمی؛ اللہ کا فرمان ہے: "فَاتَّقُوا اللہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوْا وَاَطِيْعُوْا وَاَنْفِقُوْا خَيْرًا لِّاَنْفُسِكُمْ۰ۭ وَمَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ"
ترجمہ: "لہٰذا جہاں تک تمہارے بس میں ہو اللہ سے ڈرتے رہو، اور سنو اور اطاعت کرو، اور اپنے مال خرچ کرو، یہ تمہارے ہی لیے بہتر ہے، جو اپنے نفس کی بخالت سے بچا لیےگئے بس وہی فلاح پانے والے ہیں".(4)
اے مسلمانو! گردشِ زمانہ کتنی تیز ہے اور اس کے ساتھ ماہ و سال کتنی تیزی سے یکے بعد دیگرے آتے ہیں اور ختم ہوجاتے ہیں! ابن آدم کے آج اورکل میں انذار وتنبیہ کے سامان ہیں اور گردش آفتا ب وماہتاب میں عبرتیں ہیں، گذشتہ سال جو تمہارے ساتھ تھے آج کہاں ہیں؟ وہ موت کے تیز تیر کا شکار ہوگئے، "وَجَاۗءَتْ سَكْرَۃُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ۰ۭ ذٰلِكَ مَا كُنْتَ مِنْہُ تَحِيْدُ"
ترجمہ: " موت کی جاں کنی حق لے کر آ پہنچی، یہ وہی چیز ہے جس سے تو بھاگتا تھا".(5)
مسلمانو! اس مبارک مہینہ کے دن ختم ہورہے ہیں اور اس کے ہار کا دھاگہ ٹوٹ رہاہے اوراس نے اپنی رخصتی کا اعلان کر دیا ہے، اوراس کی چند ہی راتیں بچی ہیں, اسی طرح دن فنا ہوتے ہیں اور عمریں لپیٹ دی جاتی ہیں، اس ذات ذی الجلال کے علاوہ کچھ بھی باقی نہ رہے گا، لہذا آپ سب- اللہ آپ پر رحم فرمائے-ان شرافت والے دنوں اور راتوں کو غنیمت جانیں اورموت آنے سے پہلے نیک اعمال کرنے میں جلدی کریں.
یہ عزیز مبارک مہینہ ، اس کےوسطِ شب اور صبح میں اللہ سے سرگوشی کتنی دلچسپ ہے! اس میں تلاوتِ قرآن اور اس کی آیتوں میں تدبر دلوں کا کتنا خوشگوار مشغلہ ہے! اس میں نماز، تلاوت، ذکر واذکار کے ذریعہ مساجد کی تعمیر کتنی دلکش ہے! یہ بطور مقابلہ آرائی ہے منافع والی تجارت یعنی صدقہ وخیرات، اعتکاف اور تراویح میں.
کیا آپ حضرات نے غور کیا کہ صاحب توفیق وہ شخص ہے جس نے اس مہینہ کے حقوق ، فرائض اور سنن ادا کیے، اس میں جد جہد کیا اور اپنی جلوت وخلوت میں اللہ کے لیے اخلاص پیدا کیا، اس کے پروردگار نے اس کی تکریم کی، اسے اپنی بارگاہ سے قریب کیا اور اپنے ذکراور اپنی کتاب کی تلاوت میں مشغول رکھا.
محترم بھائیو! آپ سب کے پیارے نبی محمد ﷺ ماہِ رمضان میں جو جد وجہد کرتے تھے ،دوسرے مہینوں میں نہیں کرتے تھے اور اس کے آخری عشرے میں جو محنت کرتے اس کے دوسرے دنوں میں نہیں کرتے تھے، لہذا جب آخری عشرہ آجاتا تو اس کی راتوں میں جاگتے، اپنی کمر کس لیتے اور اپنے اہل وعیال کو جگاتے.
مسلمانو! اللہ عز وجل کی یہ مہربانی ہے کہ اس نے اس مہینہ کے آخری حصوں کو ایسے عظیم الشان اعمال کے ساتھ خاص کیا ہے، جن میں بہت زیادہ اجر ہے.
ان میں اہم ترین عمل لیلۃ القدر (شب قدر) کا قیام ہے جس کے ساتھ عظیم امید وابستہ ہے، ان راتوں میں کیا جانے والا سب سے عظیم کام اِس رات کو تلاش کرنا ہے، کیوں کہ اس کی بڑی فضیلت وشرف ہے اور عظیم قدر ومنزلت ہے، اللہ کا فرمان ہے: "وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا لَيْلَۃُ الْقَدْرِ۲ۭ لَيْلَۃُ الْقَدْرِ۰ۥۙ خَيْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَہْرٍ۳ۭؔ"
ترجمہ: "اور تم کیا جانو شبِ قدر کیا ہے؟ شبِ قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے".(6)
اس لیے ہمارے نبی محمد ﷺ اور آپ کے بعد نیک لوگ ان راتوں کا خاص اہتمام کرتے اور ان میں خصوصی طور پر زیادہ محنت کرتے تاکہ اس کا ثواب حاصل کریں اور اس کی فضیلت تلاش کریں؛ آپ ﷺ نے فرمایا: " جس نے ایمان کے ساتھ اور اجر پانے کی نیت سے شبِ قدر میں قیام کیا، اس کے گذشتہ گناہ بخش دیے جائیں گے".
ان دنوں میں"اعتکاف" ایک سنت ماثورہ اور نیکی سے پُر عبادت ہے، جس پر ہمارےنبی محمد ﷺ نے مداومت کی یہاں تک کہ رفیق اعلى سے جا ملے، چنانچہ آپ لوگ اللہ تعالى کے لیے اپنی جانب سے خیر کا مظاہرہ کریں اورجد وجہد کریں ، شاید آپ اللہ کی نوازشوں اور رحمتوں سے بہرہ مند ہوجائیں.
مسلمانو! اس مہینہ کواچھی طرح الوداع کہنے اور اس کے حسن خاتمہ پر جو چیز مددگار ہے ، وہ ہے صدقہ فطر کی ادائیگی، یہ چھوٹے، بڑے، مرد اور عورت ہر مسلمان پر فرض ہے، جسےمسلمان شہر وملک کے عام سامانِ خوراک سے نکالے، خواہ وہ کھجور ہو، یا گندم، یا جو، یا کوئی بھی اناج جو شہر والوں کی عام خوراک ہو، اس کی مقدار ہر مسلمان فرد کی طرف سے ایک صاع (یعنی تقریباً پونے تین کیلو) ہے.
جو شخص کسی شہر میں ہو اوراس کی فیملی کسی اور شہر میں ہو، تو ہ اپنے فطرہ کے ساتھ ان کا فطرہ بھی اس شہر ہی میں نکالے جس میں وہ قیام پذیر ہے، اگر ان کے ذمہ کردے کہ وہ ان کے فطرہ کے ساتھ اس کا بھی فطرہ ادا کردیں، تو یہ کافی ہوگا، اگر وہ اپنا فطرہ اس شہر میں ادا کرے جس میں وہ قیام پذیر ہے اور اس کے گھر والے اپنا فطرہ اپنے شہر میں ادا کریں،تو یہ بھی جائز ہے.
یہ صدقہ ہے، اسے ان فقیروں اور مسکینوں کو دیا جائے جن کے لیے زکاۃ حلال ہے،اسے نکالنے کا وقت عید کی رات سے شروع ہوکر عید کی نماز کے لیے نکلنے تک رہتا ہے، اگر اسے اس سے ایک یا دو دن پہلے ادا کردے تو کافی ہوگا. جو شخص عید کی نماز سے پہلے نکال نہ سکے، وہ یومِ عید کے باقی حصے میں نکال لے اور جو عید کے دن نکال نہ سکے وہ اس کے بعد بطور قضاء نکال لے.
صدقہ فطر روزہ دار کے لیے لغو وبیہودہ قول وفعل سے پاکیزگی کا سبب، مسکینوں کے لیے خوراک اور روزہ مکمل کرنے پر اللہ تعالى کا شکریہ ہے، اس لیے آپ حضرات – اللہ آپ پر رحم فرمائے- اسے شرعی طریقہ کے مطابق خوشی خوشی ادا کریں، تاکہ فقراء اس دن بھیک مانگنے سے بے نیاز ہو جائیں.
عید کی رات کے سورج غروب ہونے سے لیکر عید کی نماز تک تکبیر کہنا مردوں اور عورتوں کے لیے مشروع ہے، مرد اسے مسجدوں، بازاروں اور گھروں میں بلند آواز سے کہیں گے.
عید کی نماز کے لیے خواتین با پردہ اور بغیر خوشبو لگائے نکلیں گی، نماز اور ذکر واذکار میں حاضر ہوں گی اور خیر اور مسلمانوں کی دعاؤں میں شریک ہوں گی.
مسلمانو! توفیق اور قبول ِعمل کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ نفس اس بات پر عزم مصمم کرے کہ نیک عمل پر مداومت کرے گا اور نیک ساتھیوں کی صحبت اور ان کی ہم نشینی اختیار کرےگا ایسے ساتھی جو خیر کے کام میں اس کی مدد کریں ، شر کے کا م سے اسے دور رکھیں اور حق سے قریب کریں، "وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِيِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْہَہٗ وَلَا تَعْدُ عَيْنٰكَ عَنْہُمْ۰ۚ تُرِيْدُ زِيْنَۃَ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا۰ۚ وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنْ ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ ہَوٰىہُ وَكَانَ اَمْرُہٗ فُرُطًا"
ترجمہ: "اور اپنے آپ کو اُن لوگوں کے ساتھ روکے رکھو جو اپنے رب کی رضا کے طلب گار بن کر صبح و شام اُسے پکارتے ہیں، اور دنیوی زندگی کی زینت طلب کرتے ہوئے اُن سے ہرگز نگاہ نہ پھیرو اورکسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور جس نے اپنی خواہش ِنفس کی پیروی اختیار کر لی ہے اور جس کا کام حد سے گزر چکا ہے".(7)
نیک ساتھی اور پسندیدہ ہم نشین حق کی رہنمائی کرتے اور اس پر مدد کرتے ہیں اور نیکی کے راستوں پر چلنے میں تعاون کرتے ہیں .
محترم دوستو! اس مقام پر جس موضوع کی طرف آپ حضرات کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں اور وقت جس کا متقاضی ہے، اس کا تعلق ان افواہوں اور اکاذیب سے ہے، جو ہم نشینوں کے درمیان اور دوستوں کی محفلوں میں گردش کررہی ہیں اور جنہیں سوشل ذرائع ابلاغ اور ویپ سائٹس ٹویٹر وغیرہ ہوا دے رہے ہیں، اُن کا مقصد بد امنی پھیلانا، رائی کو پہاڑ بنانا، ہراساں کرنا، حوصلہ شکنی کرنا اور مکر کرنے والے دشمنوں کے مکر وچال کو بڑھا چڑھا کر دکھانا ہے، حالانکہ مومن اپنی زندگی میں اور اپنے دین کے بارے میں انتہائی اطمینان کی زندگی بسر کرتا ہے، کیوں کہ وہ اللہ پر ایمان، اس پر توکل اور بھروسہ رکھنے کے ساتھ اسباب اختیار کرتا ہے.
یہ راسخ اور اٹل ایمان اس بات کی تاکید کرتا ہے کہ سارےمعاملات اللہ کے ہاتھ میں ہیں، وہی کائنات کا مدبر ہے، وہی حالات کورد وبدل کرنے والا ہے،وہی اپنے دین کا مددگار ہے اور اپنے کلمہ کو سر بلند کرنے والا ہے، وہی اپنے بندوں کی حفاظت کرنے والا ہے اور اپنے دشمنوں کو ہلاک کرنے والا ہے، جو اس کے راستہ میں رکاوٹ بنتے ہیں، اس کےرسولوں کو جھٹلاتے ہیں اور اس کے اولیاء ودوستوں سے دشمنی مول لیتے ہیں.
دشمنوں کی مکاری قدیم ہے اور رزمِ حق وباطل قانون الہی ہے، اور اچھا انجام ِکار پرہیزگاروں کے لیے ہے، اللہ تعالى ظالم کو ڈھیل دیتا ہے یہاں تک کہ جب اسے پکڑتا ہے، تو اس سے بچ نہیں پاتا، اور عنقریب ظلم کرنے والے جان لیں گے کہ وہ کس کروٹ پلٹیں گے.
ہمارا مبارک ملک , ملک حرمین شریفین ، مسلمانوں کا قبلہ ہے اور شریعت کا جھنڈا بلند کرنے والا ہے، اس میں بہت زیادہ خیر ہے، ساتھ ہی اللہ سے مسلمان کی امید بہت مضبوط ہے، حادثات بیدار ومتنبہ کرتے ہیں اور قوانین الہیہ میں عبرتیں ہیں.
مومن کو اللہ تعالى کے اِن فرمانوں پر حق یقین، عین یقین اور علم یقین ہے، اللہ تعالى فرماتا ہے: "وَيَمْكُـرُوْنَ وَيَمْكُرُ اللہُ۰ۭ وَاللہُ خَيْرُ الْمٰكِـرِيْنَ"
ترجمہ: "اور وه تو اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ اپنی تدبیر کر رہا تھا اور سب سے زیاده مستحکم تدبیر والا اللہ ہے".(8)
اللہ فرماتا ہے: "وَلَا يَحِيْقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ اِلَّا بِاَہْلِہٖ"
ترجمہ: "اور بری چالیں اپنے چلنے والوں ہی کو گھیر لیتی ہیں".(9)
اور اللہ تعالى فرماتا ہے: "اِنَّہُمْ يَكِيْدُوْنَ كَيْدًا۱۵ۙ وَّاَكِيْدُ كَيْدًا۱۶"
ترجمہ: "وہ لوگ چالیں چل رہے ہیں (۱۵)اور میں بھی ایک چال چل رہا ہوں".(10)
اللہ تعالى نے جو اس مبارک ملک کو توفیق دی، اس کی حفاظت فرمائی اور اس کی صحیح رہنمائی کی،اس کی علامتوں میں سے یہ ہے کہ اس نے اس کے لیے حکمرانوں اور ان کے اہلکاروں اور مددگاروں کی یہ مبارک قیادت مہیا کی، یہ مردم ساز ملک ہے، جب اس کا کوئی سربراہ وفات پاتا ہے تو اس کی جگہ دوسرا سربراہ لے لیتا ہے، جو ان لوگوں میں ہوتا ہے، جو درست سوچ والے اورساری بزموں میں امت کے دفاع کے حوالے سے مشہور موقفوں کے حامل ہیں اور جنہوں نےعلم،زیرکی، صلاحیت اور عقلمندی کے ساتھ ملک کی تعمیر میں حصہ لیا، ہم اس (اللہ) کے فضل وانعام پر اس کی تعریف بیان کرتے ہیں اور اس کی آزمائش اور قضاء وقدر پر صبر کرتے اور رضامندی ظاہر کرتے ہیں.
ان دنوں جن کو ہم نے کھویا ہے، ان میں سرفہرست ایسا شخص ہے، جو خاص معاملات اور خارجی معاملات کا ماہر ، بین الاقوامی بزموں کا مرد آہن ،منجھی ہوئی سیاست کا شہسوار اور اس مبارک ملک کے فیصلہ سازوں میں سے ایک رہا،( اس سے میری مراد) اللہ کے بندہ پرنس سعود فیصل بن عبد العزیز ہیں، اللہ ان پر رحم فرمائے، انہیں اپنی کشادہ جنت میں جگہ عطا فرمائے، ہمیں ان کا نعم البدل عطا کرے اور انہیں ان کارناموں کا بہتر بدلہ دے، جو انہوں نے اپنے دین, اپنے وطن اور اس وطن کے حکمرانوں اور اس کے باشندوں کے لیے پیش کیا ہے، اللہ ہی کے لیے اس کے قضاء وقدر پر تمام حمد وتعریف ہے.
اے اللہ کےبندو! یہی اللہ کا قضاء وقدر ہے، اور آپ جبکہ اس مہینہ کے آخری حصے میں ہیں اور وہ آپ سے رخصت ہونے والا ہے اور جبکہ اللہ تعالى نے آپ کو نیک باصفا لوگوں کے صحبت کی توفیق دی ہے، تو آپ ذکر کی محفلوں میں جانے سے غفلت نہ برتیں، آپ طاعت پر ثابت قدم رہیں، اس پر مداومت کریں، تقرب کے کام زیادہ سے زیادہ کریں اور استغفار کو لازم پکڑیں.
اللہ تعالى کے ہاں سب سے پسندیدہ کام وہ ہے جو پائدار ہو، گرچہ وہ کم ہی کیوں نہ ہو اور اللہ تعالى نے مومن کے عمل کے لیے سوائے موت کے کوئی آخری حد نہیں رکھی ہے، اس کا فرمان ہے: "وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى يَاْتِيَكَ الْيَقِيْنُ"
ترجمہ: "اور آپ اپنے رب کی عبادت کرتے رہیں یہاں تک کہ آپ کو موت آجائے".(11)
اللہ تعالى آپ سب پر رحم فرمائے! اللہ تعالى رحم فرمائے ایسے شخص پر جس نے اپنے باقی ماندہ دنوں اور گھڑیوں میں تدارک کرنے میں جلدی کی، اپنی زیاں کاری پر پشیمان ہوا اور نیک عمل اور طاعت سے اس کی بھرپائی کی، چنانچہ- اللہ آپ کی حفاظت فرمائے- بیدار ہوجائیں اور اپنے سامنے دیکھیں اور آخرت کے معاملہ کو اپنی آنکھوں کے سامنے رکھیں کہ آپ کا یہ مہینہ آپ کے حق میں گواہی دےگا یا آپ کے خلاف؟
حسن –رحمہ اللہ- نے کہا: مومن اچھا عمل اور ڈر جمع کیے ہوئے ہوتا ہے، جبکہ منافق بد عمل اور بے خوف ہوتا ہے، پھر انہوں نے یہ آیت پڑھی: اِنَّ الَّذِيْنَ ہُمْ مِّنْ خَشْـيَۃِ رَبِّہِمْ مُّشْفِقُوْنَ۵۷ۙ وَالَّذِيْنَ ہُمْ بِاٰيٰتِ رَبِّہِمْ يُؤْمِنُوْنَ۵۸ۙ وَالَّذِيْنَ ہُمْ بِرَبِّہِمْ لَا يُشْرِكُوْنَ۵۹ۙ وَالَّذِيْنَ يُؤْتُوْنَ مَآ اٰتَوْا وَّقُلُوْبُہُمْ وَجِلَۃٌ اَنَّہُمْ اِلٰى رَبِّہِمْ رٰجِعُوْنَ۶۰ۙ اُولٰۗىِٕكَ يُسٰرِعُوْنَ فِي الْخَــيْرٰتِ وَہُمْ لَہَا سٰبِقُوْنَ۶۱
ترجمہ: "جو اپنے رب کے خوف سے ڈرے رہتے ہیں (۵۷) اورجو اپنے رب کی آیات پر ایمان لاتے ہیں (۵۸) اور جو اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے (۵۹)اور جو لوگ دیتے ہیں جو کچھ دیتے ہیں اس حال میں کہ ان کے دل کپکپاتے ہیں کہ وه اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں (۶۰)یہی ہیں جو بھلائیاں حاصل کرنے میں جلدی کرتے ہیں اور یہی ہیں جو ان کی طرف دوڑ جانے والے ہیں".(12)
اللہ تعالى مجھے اور آپ سب کو قرآن کریم اور نبی ﷺ کی سنت کے ذریعہ نفع پہنچائے.
میں اپنی یہ بات کہتا ہوں اور اللہ تعالى سے اپنے لیے ، آپ سب کے لیے اور سارے مسلمانوں کے لیے ہر گناہ اور خطا سے مغفرت طلب کرتا ہوں. آپ سب اس سے مغفرت طلب کریں، وہ یقینا بہت بخشنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے.
حواشی:
1۔(الطلاق:۶۵/ ۲-۳)
2۔(الطلاق: ۶۵/ ۴)
3۔(الطلاق: ۶۵/ ۵)
4۔(التغابن:۶۴/ ۱۶)
5۔(ق:۵۰/ ۱۹)
6۔(القدر:۹۸/ ۲-۳)
7۔(الکہف:۱۸ /۲۸)
8۔(الانفال:۸/ ۳۰)
9۔(الفاطر:۳۵/ ۴۳)
10۔(الطارق:۸۶/ ۱۵-۱۶)
11۔(الحجر:۱۵/ ۹۹)
12۔(المومنون:۲۳ /۵۷-۶۱)
آپ کا ردعمل کیا ہے؟