اسلام میں سلام کی اہمیت وفضیلت اور اس کے آداب
دنیاکی ہر متمدن ،معتمد اور مہذب قوموں میں ملاقات کے وقت پیار، محبت، جذبہ اکرام،عزت، احترام، خیراندیشی وسلامتی کےاظہاراورمخاطب کو مانوس اور منبسط و مسرور کرنے کے لیے الگ الگ طور و طریقہ اورسلیقہ کا خاص کلمہ ہوتا ہے - مثال کے طور پر عیسائی جب ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو اگر سر پر ٹوپی یا ہیلمٹ ہو تو اسے اٹھا کر تھوڑا سا سر جھکا کران الفاظ کا(انگلش میں)استعمال کرتے ہیں -
اسلام میں سلام کی اہمیت وفضیلت اور اس کے آداب
" … ظہیر الدین بخاری
دنیاکی ہر متمدن ،معتمد اور مہذب قوموں میں ملاقات کے وقت پیار، محبت، جذبہ اکرام،عزت، احترام، خیراندیشی وسلامتی کےاظہاراورمخاطب کو مانوس اور منبسط و مسرور کرنے کے لیے الگ الگ طور و طریقہ اورسلیقہ کا خاص کلمہ ہوتا ہے - مثال کے طور پر عیسائی جب ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو اگر سر پر ٹوپی یا ہیلمٹ ہو تو اسے اٹھا کر تھوڑا سا سر جھکا کران الفاظ کا(انگلش میں)استعمال کرتے ہیں -
Good morning, Good evening ,Good night, Good bye -
برادران وطن ہندو حضرات جب آپس میں ایک دوسرے کا درشن کرتے ہیں تو اپنے دونوں ہاتھ ایک ساتھ جوڑتے ہوئے پیشانی کے برابر لیجاکر زبان سے "نمسکار" یا "نمستے"کہتے ہیں - یہودی کے یہاں ملاقات کا طریقہ ٹھیک اسی طرح رواج ہے جس طرح فوجی اور ملیٹری آپس میں ایک دوسرے سے ملتے وقت سیلوٹ کرتے ہیں -
حضرت عمران بن حصین فرماتے ہیں کہ ہم لوگ زمانہ جاہلیت میں ملاقات کے وقت ایک دوسرے کو"حياک اللہ،حياک اللہ بالخیر، انعم اللہ صباحا و مساء "کی دعا دیا کرتے تھے،کیونکہ عرب کے درمیان معمولی سی بات پر جنگ وجدال،خون خرابہ اور قتل وغارت گری کی نوبت آپڑتی تھی اور یہ لڑائی طویل مدت تک چلتی رہتی تھی،لہذااہل عرب ایک دوسرے کو زندگی کی دعا دیا کرتے تھے، لیکن جب اسلام اس دارفانی میں اللہ رب العالمین کے احکامات وارشادات کولیکر نمودار ہوا اور دنیا والوں کو ایسی تعلیم دی جو قیامت تک قائم رہنے والی ہے ،دنیاکی کوئی طاقت اسے مٹا نہیں سکتی،مذہب اسلام نے اپنے ماننے والوں کو یہ حکم دیا ہے کہ جب تمہاری ملاقات کسی مسلمان بھائی سے ہو تو" السلام عليكم ورحمة اللہ و برکاتہ "کہو اور سننے والا پر لازم ہے کہ وہ اسکا جواب" وعلیکم السلام ورحمة اللہ و برکاتہ "سے دے۔
سلام کےلغوی معانی واصطلاحی مفہوم:
لغوی معانی:
طاعت وفرمانبرداری کے لئے جھکنا،عیوب و نقائص سے پاک اور بری ہونا، رنج وغم ،آفات و مصیبت سے سلامت ونجات پانا،الوداع ،رخصت کرنا،آداب،عزت واحترام، سلامتی، کلمہ دعائیہ اور صلح کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، سلام اللہ تعالیٰ کے اسماءالحسنی یعنی صفاتی ناموں میں سے ایک نام بھی ہے۔
اصطلاحی مفہوم :
سلام تسلیم سے اسم مشتق ہے - شریعت کی اصطلاح میں اس سے مراد دو یا دو سے زیادہ مسلمانوں کی آپس میں ملاقات، بھینٹ، ملاپ اور دیدار، آشنائی کےوقت یہ جملہ کہنا "السلام علیکم ورحمۃ اللہ " ہے - اور سننے والا پر لازم ہے کہ وہ اسکا جواب "و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ "کے ذریعہ دے، مطلب تم پراللہ کی افزائش، بالیدگی، بڑھوتری، رحمت وسلامتی، خیریت، صیانت، عافیت، نازل ہو۔
سلام کی ابتداء:
احادیث مطہرہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سلام کا آغاز حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق سے ہی ہوچکا تھا، حضرت ابوہریرہ رضى الله عنه رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ جس وقت خالق کائنات آدم کی تخلیق کی تو اللہ رب العزت نےحضرت آدم علیہ وسلم کو حکم دیا کہ " اے آدم ! فرشتوں کی ان جماعت پر سلام کہو تو آدم نے السلام عليكم کہا،تو فرشتوں نے جواب میں عرض کیا"و علیکم السلام ورحمۃ اللہ" - رب کائنات نے حضرت آدم علیہ السلام سےفرمایا کہ یہی سلام تمہاری اولاد کے لئے بھی ہے۔(1)
سلام کی فضیلت وفوائد :
دوستوں ! قرآن واحادیث میں سلام کی بڑی اہمیت،فضیلت بیان کی گئی ہے - خالق ارض وسماء جنتیوں سے کہینگے "ادخلوها بسلام سلام عليكم"۔جنت میں بے خوف اورسلامتی سے داخل ہوجاؤ، سلام اسلامی شعار ہے، سلام آپس میں محبت الفت، خیرسگالی ویگانگت پیدا کرتا ہے، سلام باہمی دشمنی، عداوت، کینہ کپٹ،بغض وحسد، تکبر اور گھمنڈ کو ختم کردیتا ہے - سلام بہترین اعمال میں سے ہے، سلام دخول جنت کا ذریعہ وسبب ہے، سلام اہل و عیال کے لئے رحمتوں کا خزانہ ہے، سلام قطع تعلقات کو مٹاتا ہے، سلام مغفرت کا ذریعہ ہے،سلام مسلمانوں کے حقوق میں سے ایک حق ہے، سلام قرب الٰہی ہے، سلام اجازت ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمروبن عاص فرماتے ہیں کہ ایک شخص اللہ کے رسول سے سوال کیا کہ " اسلام میں سب سے اچھا اعمال کیا ہے؟ رسول اللہ نے فرمایا "بھوکوں کو کھانا کھلانا، ہراس آدمی کو سلام کہنا جس کو تم پہچانتے ہو یا وہ اجنبی ہو یعنی سلام کو لوگوں کے درمیان عام کرنا۔
ایک حدیث میں اس طرح ذکر ہے کہ "یاایہاالناس افشواالسلام تدخلوا الجنة"(2)
اے لوگوں ! آپس میں سلام پھیلاؤ کیونکہ سلام کے ذریعے اللہ تمہیں جنت میں داخل کردیگا -
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے چھ حقوق بیان کئے ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جب ایک مسلمان دوسرے مسلمان بھائی سے ملے تو چاہئے کہ آپس میں ایک دوسرے کو سلام کرے۔(3)
عن عبد الله بن مسعودرضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : " البادئ بالسلام بريء من الكبر " (4)"سلام میں سبقت کرنے والا شخص تکبر، فخراورغرور سے بری وخالی ہوتا ہے۔
سلام کے آداب:
شریعت اسلامیہ نے جس طرح سلام کی فضیلت و حکمت کو بیان کیا ٹھیک اسی طرح سلام کے آداب واصول کا بھی بنی نوع انسان کے لیے واضح انداز میں تفصیل سے ذکرکیا ہے - ملاحظہ فرمائیے !
سلام کا جواب بہتر انداز میں دیا جائے۔
گھروں میں داخل ہو نے سے پہلے سلام کیا جائے، جس کو اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں اس طرح تذکرہ کیا ہے " واذا حییتم بتحیة فحیوا بأحس منھا او ردوھا " –(5)
سلام بلند آواز سے کیا جائے تاکہ جواب دینے میں کوئی پریشانی نہ ہو۔
سوار پیدل چلنے والا کو اور چلنے والا بیٹھنے والا کو سلام کرے -
چھوٹی جماعت بڑی جماعت والوں پرسلام کرے، چھوٹے بڑے حضرات پرسلام کرے، رسول اکرم کی حدیث اس پر دلالت کرتی ہیں۔
- عن أبي هريرة - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم " یسلم الراكب على الماشي، والماشي على القاعد، والقليل على الكثير " ۔(6)
سلام کافروں پر نہ کیا جائے، البتہ اگر کافر سلام میں سبقت کرتا ہے تو اسکے جواب میں وعلیک کہا جائے، وغیرہ وغیرہ۔
اللہ کی ذات سے دعا ہے کہ ہم مسلمانان عالم کو دین اسلام کے احکامات، فرمودات اور ارشادات پر کما حقہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین !!
حواشی:
1۔(صحیح البخاری ،رقم الحدیث:3326،صحیح مسلم ،رقم الحدیث:7092)
2۔(ترمذی ،رقم الحدیث:2485)
3۔(صحیح مسلم، رقم الحدیث: 2126)
4۔(الآداب للبیھقی، رقم الحدیث:206 )
5۔( النساء:4/86)
6۔(صحیح البخاری، رقم الحدیث:6231،صحیح مسلم، رقم الحدیث:2160)
آپ کا ردعمل کیا ہے؟