احترام رسول صلی اللہ علیہ وسلم
"يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْـہَرُوْا لَہٗ بِالْقَوْلِ كَجَــہْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ" ترجمہ: اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے اوپر نہ کرو اور نہ ان سے اونچی آواز سے بات کرو جیسے آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو، کہیں (ایسا نہ ہو) کہ تمہارے اعمال اکارت جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو ۔(1) سورہ حجرات کی اس آيت سے بہت سے مسائل ثابت ہوتے ہیں ان میں سےچند حسب ذیل ہیں۔
احترام رسول صلی اللہ علیہ وسلم
" …نور الاسلام مدنی
"يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْـہَرُوْا لَہٗ بِالْقَوْلِ كَجَــہْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ"
ترجمہ: اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے اوپر نہ کرو اور نہ ان سے اونچی آواز سے بات کرو جیسے آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو، کہیں (ایسا نہ ہو) کہ تمہارے اعمال اکارت جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو ۔(1)
سورہ حجرات کی اس آيت سے بہت سے مسائل ثابت ہوتے ہیں ان میں سےچند حسب ذیل ہیں۔
1۔ اللہ سبحانہ وتعالی نے مسلمانوں کو یہ ادب سکھایا ہےکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجود گی میں جب تم آپس میں گفتگو کرو تو تمہاری آواز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے بلند نہ ہو۔
2۔ایک ادب یہ بھی سکھا یا ہے کہ جب خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کلام کرو تو نہایت وقار اور سکون سے کرو، اس طرح اونچی آواز سے نہ کرو جس طرح تم آپس میں بے تکلفی سے ایک دوسرے کے ساتھ کرتے ہو اگر ادب واحترام کے ان تقاضوں کو ملحوظ نہ رکھوگے تو بے ادبی کا احتمال ہے جس سے بے شعوری میں تمہارے اعمال برباد ہوسکتے ہیں۔
3۔ اس آیت کریمہ سے تیسرا مسئلہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہر ایک مومن مرد اور عورت پر فرض ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کردے نہ کہ ان کے مقابلے اپنی بات پر یا کسی اور کی رائے پر اڑے رہے۔
اس سلسلے میں قرآن کی متعدد آیتیں وارد ہوئی ہیں ان میں سے چند ملاحظہ ہو۔
(الف)" وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِيُطَاعَ بِـاِذْنِ اللہِ"
ترجمہ: ہم نے ہر رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کو صرف اس لئے بھیجا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کی فرمانبرداری کی جائے۔(2)
(ب)" اِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذَا دُعُوْٓا اِلَى اللہِ وَرَسُوْلِہٖ لِيَحْكُمَ بَيْنَہُمْ اَنْ يَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا۰ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۵۱وَمَنْ يُّطِعِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَيَخْشَ اللہَ وَيَتَّقْہِ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْفَاۗىِٕزُوْنَ۵۲"
ترجمہ: ایمان والوں کا قول تو یہ ہے کہ جب انہیں اس لئے بلایا جاتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ان میں فیصلہ کر دے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور مان لیا یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں ۔جو بھی اللہ تعالیٰ کی، اس کے رسول کی فرماں برداری کریں، خوف الٰہی رکھیں اور اس کے عذابوں سے ڈرتے رہیں، وہی نجات پانے والے ہیں ۔(3)
سورہ نور کی ان آیتوں سے یہ بات واضح ہےکہ فلاح وکامیابی کے مستحق صرف وہ لوگ ہوں گے جو اپنے تمام معاملات میں اللہ اور رسول کے فیصلے کو خوش دلی سے قبول کرتے اور انہی کی اطاعت کرتے ہیں اور خشیت الہی اور تقوی سے متصف ہیں نہ کہ دوسرے لوگ جو ان صفات سے محروم ہیں۔
(ج)" فَلْيَحْذَرِ الَّذِيْنَ يُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِہٖٓ اَنْ تُصِيْبَہُمْ فِتْنَۃٌ اَوْ يُصِيْبَہُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ"
ترجمہ: سنو جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انھیں ڈرتے رہنا چاہیے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ آپڑے یا انھیں دردناک عذاب نہ پہنچے۔(4)
اس آیت میں اللہ تعالی نے حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں صاف طور پر فرمایا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکموں کو ایسا نہ سمجھنا جس طرح تم ایک دوسرے کو مخاطب کر کے حکم دیتے ہو (یعنی خواہ ان پر عمل کرو یا نہ کرو۔)
رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات واجب التعمیل ہے اور جو لوگ ان کے ارشادات کو نہیں مانتے اور اپنے لیے ان ارشادات کو صحیح اور مستند نہیں سمجھتے ان کو ڈرنا چاہئے ۔ اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منہاج، طریقے اور سنت کو ہر وقت سامنے رکھنا چاہئے۔ اس لیے کہ جو اقوال واعمال اس کے مطابق ہوں گے وہی بار گاہ الہی میں مقبول اور دوسرے سب مردود ہوں گے۔ آپ کا فرمان ہے "من عمل عملا لیس علیہ امرنا فھو رد" جس نے ایسا کام کیا جو ہمارے طریقے پر نہیں وہ مردود ہے۔(5)
4۔ اس آیت سے یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم وتوقیر اور تکریم آپ کی وفات کے بعد بھی اسی طرح ضروری ہے جس طرح آپ کی زندگی میں تھی اور آپ کی زبان مبارک سے سنے ہوئے کلام کو جو مقام ومرتبہ حاصل تھا وہی مقام ومرتبہ آپ کے ان اقوال والفاظ واحکام کو حاصل ہے جو آپ سے صحیح سند سے منقول ہیں۔ اس لیے جب آپ کی حدیث بیان کی جائے یا شریعت کے احکام بیان کئے جائیں تو حاضرین پر واجب اور ضروری ہوتا ہےکہ وہ اپنی آوازیں پست رکھیں بلند نہ کریں اور نہ ہی ان سے اعراض کریں۔ بلکہ دل وجان سے قبول کر کے عملی جامہ پہنانے کی کوشش کریں۔(6)
5۔ اس آيت سے یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہےکہ جو شخص اپنی عقل ،سمجھ،رائے یا کسی اور کی عقل،بات اور رائے کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث اور شریعت پر مقدم کرتا ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بڑا نا فرمان اور گستاخ ہے۔(7)
6۔ اس آیت سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہےکہ علماء کرام کی تعظیم وتوقیر ضروری ہے اور ان کے سامنے اپنی آواز بلند کرنا غلط ہے کیونکہ علماء انبیاء علیھم السلام کے وراث ہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :" انما العماء ورثۃ الانبیاء" بے شک علماء انبیاء کے وراث ہیں۔(8)
حواشی:
1۔(الحجرات:49/2)
2۔(النساء:4/64)
3۔ (النور:24/51۔52)
4۔ (النور:24/63)
5۔(صحیح مسلم،حدیث نمبر:171)
6۔(احکام القرآن لابن العربی 6/1792۔1703)
7۔(بدائع التفسیر لابن القیم:3/5)
8۔(سنن ابی دواد،کتاب العلم ،حدیث نمبر:3641۔ تفسیر القرطبی:19/361)
(صفحہ 50کا بقیہ)سرگرداں رہتے ہیں، کہ اسلام کے سچے نمائندہ اور علمبردار ہم ہی ہیں، لہذا پورے عرب کی سنی برادری پر سرداری وبرتری، نیز خطہ کی قیادت وسیادت کا حق ہمیں ہی ملنا چاہیئے، صرف اسی پر بس نہیں، بلکہ اس سے بڑھ کر- جو ایک المیہ ہی ہے - حرمین شریفین جیسے مقدس مقامات کی دیکھ ریکھ، انتظام وانصرام اور تحفظ ونگہداشت کی باگ ڈور سنبھالنے کا حسین خواب بھی دیکھ رہے ہیں۔
اللہ ان کے رو سیاہ کرے، ان کا بھلا نہ کرے، نیز ان پر اپنی وہ مار نازل فرمائے، جس کے یہ اپنے کالے کرتوت اور مجرمانہ افعال واعمال کی پاداش میں کما حقہ مستحق اور سزاوار ہیں۔ آمین۔
ہمارے بہت سے مسلمان بھائی اس خبیث، بد طینت اور مجرم مجوسی حکومت کی اس سیاہ اور ناپاک حقیقت سے اتنے غافل ہیں، کہ "شیعہ سنی، بھائی بھائی" کا دلفریب نعرہ تک لگانے میں کوئی دریغ یا حرج اور قباحت محسوس نہیں کرتے، جس کے پیش نظر دنیا کو ان مجوسی رافضیوں کی اصل حقیقت سے آگاہی اور روشناسی واجب سمجھتے ہوئے یہ چند سطور لکھنا ضروری قرار پایا۔
اللہ رب العزت ان مجرموں کے شر وبرائی اور مکر و فریب سے ہم سب کو محفوظ رکھے۔آمین۔
آپ کا ردعمل کیا ہے؟