ائمہ حرمین شریفین کا پیغام امن وسلامتی

ان حالات میں خدام حرمین شریفین نے بڑا مناسب قدم اٹھایا ہے ۔وہ اسلام کے پیغام کو پوری دنیا میں عام کرنا چاہتے ہیں،ان غلط فہمیوں کا ازالہ کرنا چاہتے ہیں جو اسلام اور مسلمانوں کے سلسلے میں پھیلائی جارہی ہیں۔حرمین شریفین کے محترم ائمہ اور خطباء اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں،وہ علوم شرعیہ میں ممتاز ہونے کے ساتھ ساتھ موجودہ دنیا کو بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں،

May 10, 2023 - 18:00
Jun 3, 2023 - 18:02
 0  49
ائمہ حرمین شریفین کا پیغام امن وسلامتی

 

ائمہ حرمین شریفین کا پیغام امن وسلامتی

                          "  ادارہ 

 حرمین شریفین انسانیت کے لیے امن وسلامتی کی ضمانت ہیں۔ان دونوں مقدس مقامات سے صبح وشام وہ پیغام نشر ہوتا ہے جو خالق کائنات کا پیغام ہے۔وہ خالق کائنات جو اپنی تمام مخلوق کا رازق اور مربی ہے ۔جس نے دنیائے انسانیت کو اپنے منتخب بندوں کے ذریعے صراط مستقیم دکھانے کا انتظام ہر دور میں اور دنیا کے ہر خطے میں کیا۔اپنی مرضی سے واقف کرانے کے لیے آسمانی صحیفے اتارے۔قرآن مجید اور محمد عربی ﷺ اسی سلسلے کی آخری کڑی ہیں۔کس قدر افسوس کی بات ہے کہ روشنی موجود ہے لیکن لوگوں نے تاریکی کو اپنی ترجیح بنارکھی ہے،ہدایت موجود ہے لیکن ضلالت سے انھیں پیار ہوگیا ہے اور صراط مستقیم روشن ہے لیکن ٹیڑھے میڑھے راستوں پر چلنا انھیں اچھا لگتا ہے۔مزید حیرت اس بات پر ہے کہ اللہ کی اسی روشنی کو تاریکی کہا جارہا ہے،اسی ہدایت کو ناقابل قبول بتایا جارہا ہے اور اسی صراط مستقیم کو اختیار کرنے کے لیے لوگ تیار نہیں ہیں۔نتیجہ ظاہر ہے۔دنیا بارود کے ڈھیر پر ہے،تمام تر ترقیات کے باوجود قلبی سکون واطمینان مفقود ہے، دہشت گردی نے زندگی دوبھر بنادی ہے،جانوں کی کوئی قیمت نہیں رہ گئی،عزت وعصمت کا کسی کو کوئی خیال نہیں رہ گیا  اور عدل ومساوات کا تصور بے معنی بن گیا ہے۔کہا جاتا ہے کہ دنیا پہلے سے کہیں زیادہ مہذب ہوگئی ہے،اسے حقوق انسانی کا خیال ہمہ وقت رہتا ہے اور عالمی امن کے پیغام برابر سرگرم عمل رہتے ہیں۔کیا اس بات میں کوئی صداقت نظر آتی ہے۔اگر یہ سچائی ہے تو بتایا جائے کہ افغانستان میں کیا ہوا؟عراق کی سرزمین آج کس حال میں ہے؟لیبیا کی عوامی زندگی کن مصائب سے دوچار ہے؟شام میں کس قدر خون بہہ رہا ہے ؟دنیا بھر میں اقلیات کی کیا حیثیت ہے؟ظاہر ہے کہ ان سوالات کے جوابات دنیا دیتی ہے لیکن ایسے جوابات جن کو نہ دماغ قبول کرتا ہے اور نہ جن سے دل مطمئن ہوتا ہے۔

ان حالات میں خدام حرمین شریفین نے بڑا مناسب قدم اٹھایا ہے ۔وہ اسلام کے پیغام کو پوری دنیا میں عام کرنا چاہتے ہیں،ان غلط فہمیوں کا ازالہ کرنا چاہتے ہیں جو اسلام اور مسلمانوں کے سلسلے میں پھیلائی جارہی ہیں۔حرمین شریفین کے محترم ائمہ اور خطباء اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں،وہ علوم شرعیہ میں ممتاز ہونے کے ساتھ ساتھ موجودہ دنیا کو بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں،انھیں دور جدید کے تقاضوں سے مکمل آگاہی ہے،وہ ان کمیوں اور کمزوریوں سے بھی واقف ہیں جو آج مسلمانوں کے اندر پیدا ہوچلی ہیں۔متولیان حرمین شریفین نے اپنی یہ ذمہ داری سمجھی ہے کہ امامان حرمین شریفین کے ذریعے دنیا کے تمام لوگوں تک اسلام کے پیغام امن وسلامتی کو عام کیا جائے۔چنانچہ ان کے دورے دنیا کے مختلف ممالک میں ہورہے ہیں اور وہ اپنی عالمانہ بصیرت سے مسلمانوں اور دوسرے مذاہب کے لوگوں کو بتارہے ہیں کہ اسلام کی حقیقی تعلیمات کیا ہیں اور کیوں اسلام اس دنیا کا آخری اور مکمل مذہب ہے۔

خدام حرمین شریفین جس حکومت کے ذمہ دار ہیں ،وہ دنیا میں واحد حکومت ہے جو اسلام کے تصور توحید کی صحیح ترجمانی کرتی ہے۔شرک،بدعت اور اس کے مظاہر سے نہ صرف دور ہے بلکہ اس کی کوشش ہوتی ہے کہ دوسرے مسلمان بھی کتاب وسنت کی تعلیمات کو صحیح طور پر سمجھیں۔انھوں نے اپنی حکومت کا نظام پورے طور پر اسلامی طریقے پر بنانے اور اسے چلانے کی کوشش کی ہے۔کمیاں اور خامیاں کہاں نہیں ہوتیں،وہ بھی اس سے محفوظ نہیں ہیں لیکن مجموعی حیثیت سے دیکھا جائے تو آج کی تاریخ میں وہی ہیں جو اسلام کے حق میں کھڑے ہیں اور اسلام کی وکالت کرتے ہیں۔انتہاء پسند شیعہ،روافض،اہل بدعت،قبر پرست اور گمراہ صوفیاء ہمیشہ سے ان کی مخالفت کرتے آئے ہیں اور آج بھی ان کی مخالفت اپنے شباب پر ہے بلکہ اب تو اسلام دشمنوں سے ہاتھ ملاکر سعودی حکومت کو زیر کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ہمارے تحریکی بھائی بھی کھل کر سعودی حکومت اور اس کے نظام کی مخالفت کرتے ہیں اور جب بھی وہ اقامت دین اور حکومت الٰہیہ کا ذکر چھیڑتے ہیں تو ان کی تان سعودی حکومت پر ہی ٹوٹتی ہے۔ہندوستان،پاکستان اور مصر جہاں ان تحریکی بھائیوں کی تنظیمیں کافی مضبوط ہیں ،ان میں مسلمانوں کی تربیت کرنے کی بجائے اور مسلمانوں کو درپیش مسائل حل کرنے کی بجائے ،یہ اس ادھیڑ بن میں لگے ہوئے ہیں کہ کسی طرح ایران کے اسلامی جمہوریہ کی طرح سعودی عرب میں بھی جمہوریت آجائے۔جمہوریت کو یہ انسانیت کے تمام دکھوں کا علاج سمجھتے ہیں۔ایران کی جمہوریت اگر اسلامی جمہوریت کا نمونہ ہے تو کیوں وہاں کسی سنی کو مسجد بنانے کا حق نہیں ہے۔بعض سنی مساجد کیوں مسمار کی جارہی ہیں اور سنیوں پر طرح طرح کے الزامات عائد کرکے انھیں سزائے موت دی جارہی ہے۔شام میں ظالم بشار اسد کی جس طرح کھل کر ایران نے حمایت کی ہے ،اس کا کیا جواز ہے؟حج اسلام کا اہم ترین رکن ہے۔دوران حج تلبیہ پکارنے کا حکم ہے ۔یہ کس اسلام میں جائز ہے کہ وہاں اللہ کا کلمہ بلند کرنے کی بجائے خمینی اور ایران کا کلمہ بلند کیا جائے۔جلوس کی شکل بناکر دوسرے حجاج کرام کو پریشان کیا جائے۔حرمین شریفین کو مسلم ممالک کی تولیت میں دینے کا انجام کیا ہوگا؟کیا اس کے نتائج اور عواقب پر غور کیا گیا ہے ۔ہر ملک کے حاجی اپنے اپنے ملکوں کا جھنڈا لے کر حج کریں گے تو دنیا کو کیا پیغام جائے گا؟حج کے دوران اب تک کئی ایک حادثے ہوچکے ہیں جن میں بہت سے حجاج کرام جاں بحق ہوئے ہیں،اپنے اپنے ملکوں کا جتھا اور گروہ بناکر مقامات حج پر جانا اور وہاں دوسروں کو دھکے دے کر اپنے لیے جگہ بنانا سخت معیوب اور ناپسندیدہ عمل ہے۔اسی طرح کی بھیڑ جمع کرنے کی وجہ سے اکثر حادثات پیش آتے ہیں۔دوران حج نبی اکرم ﷺ نے جدال سے منع فرمایا ہے۔جدال صرف کسی سے لڑنے جھگڑنے کا نام نہیں ہے بلکہ لڑائی جھگڑے کی صورت پیدا کردینا بھی اس میں شامل ہے۔ایران کے حاجیوں نے ماضی میں طرح طرح کے نعرے حج کے دوران لگائے ہیں ،کیا اس طرح کے نعروں کا کوئی جواز ہے؟کیا یہ نعرے کسی ملک کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں اور کیا اس سے کسی ملک کی صورت حال بہتر ہوسکتی ہے؟

بہر حال ایرانی،تحریکی اور اہل بدعت کے پروپیگنڈے جاری ہیں ۔بہت سے ناواقف سنی مسلمان بھی اس کا شکار ہورہے ہیں۔محاذ آرائی سعودی عرب کا مزاج نہیں ہے ،وہ مثبت طریقے سے کام کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔اسی لیے کافی غور وفکر کے بعد خدام حرمین شریفین نے ائمہ وخطباء کو اجازت دی ہے کہ وہ دنیا کے مختلف حصوں میں جائیں اور اسلامی تعلیمات سے مسلمانوں کو واقف کرائیں ۔ساتھ ہی ساتھ وہ ان غلط فہمیوں کا ازالہ بھی کریں جو اس کے مخالفین تمام وسائل اعلام کے ذریعے پھیلارہے ہیں۔ہمارے ملک میں کئی ایک ادارے اور دینی تنظیمیں ہیں جو حرمین شریفین کے معززمہمانوں کا پرتپاک خیر مقد م کرتی ہیں ،ان کے پروگرام آرگنائز کرتی ہیں اور مسلمانوں کو موقع فراہم کرتی ہیں کہ وہ اس موقع پر اجتماعات میں حاضر ہوکر حرمین شریفین کے پیغام امن وسلامتی کو سنیں اور اپنے ایمان ویقین میں اضافہ کریں۔ائمہ حرمین شریفین سنیوں میں موجود مسلکوں اور فرقوں کو بہت زیادہ اہمیت نہیں دیتے کیوں کہ انھیں معلوم ہے کہ ایک مسلمان اگر اللہ پر،قرآن پر اور آخری نبی محمد ﷺ پر ایمان رکھتا ہے تو وہ مسلمان ہے اور ہمارا دینی بھائی ہے۔مسلکی بھید بھاؤ لاعلمی کا نتیجہ ہے۔ایک مسلمان جس قدر تعلیمات کتاب وسنت سے قریب ہوتا جائے گا،اس کے اندر مسلکی شدت کم ہوتی جائے گی۔ائمہ اربعہ جن کی تقلید عام طور پر سنی مسلمان کرتے ہیں،انھوں نے اس شدت پسندی اور مسلمانوں کی تفریق اور نفرت کی وکالت کبھی نہیں کی۔اس کی وکالت صرف وہ لوگ کرتے ہیں جو اپنی دکان سجانے پر یقین رکھتے ہیں۔جن کو ملت سے زیادہ اپنے مفادات عزیز ہیں۔ان بے چاروں کو یہ نہیں معلوم کہ جب ملت ہی نہیں رہے گی تو تمھارے مسلک اور تمھاری دکان کہاں چلے گی۔بہر حال اس نازک صورت حال میں خدام حرمین شریفین اور ائمہ حرمین شریفین کے اس مثبت اقدام کی ہم ستائش کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ انھیں ان کے نیک مقاصد میں کامیابی عطا فرمائے۔آمین۔

   

 

 

آپ کا ردعمل کیا ہے؟

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow