"آیئے ناداروں کا غم خوار بنیں"
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک وقت تھا جب کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی پر دینا ر ودرہم کو ترجیح نہ دیتا تھا جبکہ آج ہمیں مسلمان بھائي کی نسبت دینار ودرہم سےزیادہ محبوب ہیں اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا کہ آپ نے فرمایا :"کم من جار متعلق بجارِہِ یوم القیامۃ، بقول: یارب ! ھذاأغلق بابہ دونی فمنع معروفہ"(1) ترجمہ: کتنے ہی پڑوسی ایسے ہونگے جو قیامت کے روز اپنے پڑوسیوں سے چمٹے ہوئے ہونگے، ان میں سے ہر ایک اپنے پڑوسی کے بارے میں کہے گا: اے میرے رب! اس نے میرے سامنے اپنا دروازہ بند کر کے اپنی نیکی کو روک لیا تھا ۔
"آیئے ناداروں کا غم خوار بنیں"
"… کوثر المدنی
الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی رسولہ الکریم اما بعد:
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک وقت تھا جب کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی پر دینا ر ودرہم کو ترجیح نہ دیتا تھا جبکہ آج ہمیں مسلمان بھائي کی نسبت دینار ودرہم سےزیادہ محبوب ہیں اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا کہ آپ نے فرمایا :"کم من جار متعلق بجارِہِ یوم القیامۃ، بقول: یارب ! ھذاأغلق بابہ دونی فمنع معروفہ"(1)
ترجمہ: کتنے ہی پڑوسی ایسے ہونگے جو قیامت کے روز اپنے پڑوسیوں سے چمٹے ہوئے ہونگے، ان میں سے ہر ایک اپنے پڑوسی کے بارے میں کہے گا: اے میرے رب! اس نے میرے سامنے اپنا دروازہ بند کر کے اپنی نیکی کو روک لیا تھا ۔
محترم قارئین کرام! قیامت کے روز پڑوسی اپنے پڑوسی کا گریبان کیوں پکڑا ہوگا؟ کس بات کی شکایت اللہ تعالی سے کررہا ہوگا؟ اسی بات کی شکایت کررہا ہوگا جس کا مشاہدہ ہم اپنی آنکھوں سے روزانہ کرتے رہتے ہیں۔
معاشرہ میں کس قدر ہمدردی وغم خواری کا فقدان ہے ، ہم دوسرے مسلمان بھائی کی تکلیف کو اپنی تکلیف نہیں سمجھتے آج ہمارا سماج اس قدر بے حس ہوچکا ہے کہ سماج کے بے شمار معصوم بچے نہایت بے کسی ولا چاری کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔
ایک وقت وہ تھا جب مسلمان مسلمان کا ہمدرد تھا اور ضرورت سے زیادہ چیزوں پر اپنا حق نہیں سمجھتا تھا بلکہ اپنے ضرور ت مند بھائی کو دے دیا کرتا تھا ۔ جبکہ آج حالات بدل چکے ہیں، کسی کو کسی کی فکر کم ہی ہے۔ ہر شخص اپنی ذات اور اپنے اہل وعیال کے لیے ہی سوچتا ہے اور نوبت یہاں تک جا پہنچی ہے کہ ضرورت سے زیادہ چیزیں گھر میں پڑی پڑی خراب ہوجاتی ہیں لیکن ضرورت مند مسلمان کو نہیں دی جاتی ہیں ۔
آج سماج میں بہت سارے یتیم ونادار بچے ایسے ہیں جن کو بھر پیٹ کھانا میسر نہیں، ان کی طرف شفقت کی نظر سے دیکھنے والا کوئی نہیں ۔ کتنے ایسے غریب بچے ہیں جو تعلیم لینا چاہتے ہیں لیکن غریبی ومحتاجگی ان کے لیے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے، ایسے بچوں کے لیے تعلیم کا انتظام کرنے کے لیے کوئی آگے نہیں آتا ۔ کتنی ایسی بیوہ عورتیں ہیں جو نہایت درد بھری زندگی گزار نے پر مجبور ہیں، ان کی زندگی کیسے آسانی سے گذرے اس کی فکر اگر ہم میں سے صاحب حیثیت حضرات نہ کریں تو کس قدر بے حسی کی بات ہوگی ۔ کیا ہم ایسا نہیں کرسکتے کہ ہم گھر کے آس پاس یا محلہ میں ایسے بچوں کی خبر لیں جو رات کو بھوکے سونے پر مجبور ہیں، ہم ان کے گھر دو یا تین ہزار رقم دے دیں تکہ مہینہ بھر کھانے پینے کا انتظام ہوجائے۔
جب ہماری نظروں کے سامنے ایسے بچے آتے ہوں جن کے بدن پر لباس نہیں ہوتے یا ایسے بچے جو ننگے پاؤں چلنے پر مجبور ہوں، کیا ہم ان کو لباس نہیں پہنا سکتے کیا ہم ان کو چپل جوتے ہیں دلوا سکتے، ہم سے جتنا ہوسکے ہم آگے تو آئیں ہم دل سے چاہیں تو سہی ، ضرور ہم میں سے بہت سے افراد ایسے ہیں اگر وہ ٹھان لیں تو بلاشبہ کہہ رہاہوں محلہ کا کوئی بچہ نہ بھوکا سونے کو مجبور ہوگا نہ کوئی ننگاپھرے گا اور نہ ہی کوئی تعلیم سے محروم رہے گا اور نہ ہی کوئی شخص بغیر علاج کئے بیماری کو جھیلنے پر مجبور ہوگا۔
معلوم ہونا چاہئے کہ کسی مومن کو خوشی پہنچانا کسی بھی طریقہ سے ہو سب ے افضل عمل ہے جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :" أفضل الأعمال إدخال السرور علی المؤمن، کسوت عورتہ، أو أشبعت جو عتہ أو قضیت لہ حاجتہ "(2) ترجمہ: سب سے افضل عمل کسی مومن کو خوشی پہنچانا ہے (مثلا) تم اس کے ستر کو ڈہانپ دو یعنی اسے لباس پہنا دو یا اس کی بھوک مٹا دو یا اس کی ضرورت پوری کردو ۔
میں اپنی اس تحریر کے ذریعہ صاحب ثروت کی توجہ اس بات کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ آپ گھر کے آس پاس دیکھیں اگر کوئی ہونہار غریب بچہ یا بچی ہے تو آپ اس کی تعلیم کا خرچ اپنے سر لیجئے اور خود مدرسہ یا اسکول میں ان کے داخلہ کا انتظام کرائیں۔ اور یہ بات یادرکھیں کہ جب آپ کسی بچہ کی کفالت کی ذمہ داری لے رہے ہوں تو ہرگز یہ خیال نہ آئے کہ کب تک کفالت کر سکونگا آگے چل کر ذمہ داری اٹھا سکوں گا یا نہیں ۔
اس طرح کی باتیں ہرگز دل میں نہ آسکیں ، کیونکہ یہ شیطانی وسوسہ اور شیطانی روکاٹ ہے۔ شیطان تو ہے ہی وہ جو ہمیشہ انسان کو بھلائی کے کاموں سے روکتا ہے اور برائی کا حکم کرتا ہے اور فقر ومحتاجگی سے ڈراتا ہے ۔
جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا :" اَلشَّيْطٰنُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَاْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَاۗءِ۰ۚ وَاللہُ يَعِدُكُمْ مَّغْفِرَۃً مِّنْہُ وَفَضْلًا۰ۭ وَاللہُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ"(3) ترجمہ: شیطان تمہیں فقیری سے دھمکاتا ہے اور بےحیائی کا حکم دیتا ہے (١) اور اللہ تعالیٰ تم سے اپنی بخشش اور فضل کا وعدہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ وسعت والا اور علم والا ہے۔
جی ہاں! جب بھلے کام میں مال خرچ کرنا ہو تو شیطان ڈراتا ہےکہ مفلس اور قلاش ہوجاؤگے ، لیکن شیطان کے ڈرانے سے ہم نہ ڈریں بلکہ ہم حوصلہ اور عزم کے ساتھ غریبوں، مسکینوں ، محتاجوں اور مریضوں کی مدر کریں اور اللہ تعالی کے فضل وکرم پر یقین رکھیں ، کیوں کہ اللہ تعالی کی ذات وہ ذات ہے جس کے پاس تمام آسمانوں اور زمین کے خزانوں کی کنجیاں ہیں جس کی چاہے روزی کشادہ کردے اور جس کی چاہے تنگ کردے۔ "لَہٗ مَقَالِيْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۰ۚ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ وَيَقْدِرُ"(4) تو پھر مستقل کی فکر اب ہم کیوں کریں ۔
اللہ تعالی ہمیں مسلمان بھائیوں کا ایسا ہمدرد بنائے کہ ہم ان کی تکلیف کو اپنی تکلیف محسوس کریں اور جہاں تک ہوسکے بوقت ضرورت ان کا ساتھ دیں ۔ آمین۔
حواشی:
1۔(الادب المفرد:111 ،وحسنہ الالبانی)
2۔(صحیح الترغیب:2089) (کتاب اللباس والزینۃ باب الترغیب فی ترک الترفع فی اللباس تواضعا، ابن ماجہ :3607)
3۔(البقرۃ:2/268)
4۔(الشوری:42/12)
آپ کا ردعمل کیا ہے؟