نماز اور اس کی اہمیت

اے مسلمانو!اللہ کے بندو!اللہ تعالیٰ نے جو فرائض تمھارے اوپر عائد کیے ہیں اور جو چیزیں واجب کی ہیں،ان کے بارے میں اللہ سے ڈرو اور ان فرائض وواجبات کا خیال رکھو۔یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ نگراں بھی ہے اور محاسب بھی۔اللہ تمھیں اپنی رحمتوں کے سایے میں رکھے،یہ بھی یاد رہے کہ اللہ نے اپنے بندوں پر جو چیزیں واجب کی ہیں اور جن فرائض کا انھیں مکلف بنایا ہے ،ان میں سب سے بڑا واجب اورمہتم بالشان فریضہ نماز ہے۔نماز دین اسلام کا ستون ہے اور شہادتین کے بعد سب سے زیادہ بڑاتاکیدی رکن ہے۔نماز بندے اور اس کے رب کے درمیان تعلق پیدا کرنے کا ذریعہ ہے،یہی وہ فریضہ ہے جس کا محاسبہ قیامت کے دن سب سے پہلے ہوگا۔اگر نماز کے امتحان میں کامیاب ہوگئے تو باقی دوسرے امتحانات میں بھی کامیابی مل جائے گی لیکن اگر اسی میں فیل ہوگئے تو باقی دوسرے اعمال میں بھی فیل ہوجائیں گے۔مسلمان اور کافر کے درمیان خط امتیاز کھینچنے والی چیز یہی نماز ہے۔نماز قائم کرنا ایمان ہے اور اس کو ضائع کرنا کفر وسرکشی ہے۔

May 10, 2023 - 12:38
 0  18

 

نماز اور اس کی اہمیت

                          " ڈاکٹر عبد الرزاق البدر   

      تمام حمد وشکر اللہ کے لیے ہے،ہم اسی کی تعریف کرتے ہیں،اسی سے مدد چاہتے ہیں،اسی سے مغفرت طلب کرتے ہیں اور اسی کے حضور توبہ کرتے ہیں۔ہم اپنے نفس کی شرانگیزیوں اور اپنے اعمال کی برائیوں سے اللہ ہی کی پناہ چاہتے ہیں۔جس کو اللہ ہدایت سے سرفراز کردے ،اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اور جسے وہ گمراہ کردے،اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں،وہ اکیلا ہے،اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔آپ ﷺ پر اور آپ کے تمام آل واصحاب پر خوب خوب رحمتیں اور سلام نازل ہوں۔حمد وصلوۃ کے بعد:

اے مسلمانو!اللہ کے بندو!اللہ تعالیٰ نے جو فرائض تمھارے اوپر عائد کیے ہیں اور جو چیزیں واجب کی ہیں،ان کے بارے میں اللہ سے ڈرو اور ان فرائض وواجبات کا خیال رکھو۔یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ نگراں بھی ہے اور محاسب بھی۔اللہ تمھیں اپنی رحمتوں کے سایے میں رکھے،یہ بھی یاد رہے کہ اللہ نے اپنے بندوں پر جو چیزیں واجب کی ہیں اور جن فرائض کا انھیں مکلف بنایا ہے ،ان میں سب سے بڑا واجب اورمہتم بالشان فریضہ نماز ہے۔نماز دین اسلام کا ستون ہے اور شہادتین کے بعد سب سے زیادہ بڑاتاکیدی رکن ہے۔نماز بندے اور اس کے رب کے درمیان تعلق پیدا کرنے کا ذریعہ ہے،یہی وہ فریضہ ہے جس کا محاسبہ قیامت کے دن سب سے پہلے ہوگا۔اگر نماز کے امتحان میں کامیاب ہوگئے تو باقی دوسرے امتحانات میں بھی کامیابی مل جائے گی لیکن اگر اسی میں فیل ہوگئے تو باقی دوسرے اعمال میں بھی فیل ہوجائیں گے۔مسلمان اور کافر کے درمیان خط امتیاز کھینچنے والی چیز یہی نماز ہے۔نماز قائم کرنا ایمان ہے اور اس کو ضائع کرنا کفر وسرکشی ہے۔

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے منقول ایک روایت میں کہا گیا ہے: لاَ دِينَ لِمَنْ لا صَلاةَ لَه "جو نماز نہیں پڑھتا ،اس کا کوئی دین نہیں"(1)۔اسی طرح سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ایک اثر  میں ہے: وَلَا حَظَّ فِي الْإِسْلَامِ لِمَنْ تَرَكَ الصَّلَاةَ "جس نے نماز ترک کردی اس کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں" (2)۔ جس نے اس کی محافظت کی،وہ اس کے دل اور چہرے کو منور رکھے گی،اس کی قبر میں روشنی کا باعث بنے گی اور میدان حشر میں اسے روشنی فراہم کرے گی اور قیامت کے دن اس کی نجات کا ذریعہ ثابت ہوگی۔اس کا حشر انبیاء،صدیقین،شہداء اور صالحین کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے اور وہ اس کے بہترین رفیق ہوں گے۔اس کے برعکس جو نماز کی حفاظت نہیں کرے گا ،وہ اس کے لیے نہ نور ہوگی اور نہ اس کے لیے دلیل بنے گی اور نہ قیامت کے دن اس کی نجات کا سبب بنے گی اور اس کا حشر فرعون،ہامان،قارون اور ابی بن خلف کے ساتھ ہوگا۔

    امام احمد رحمہ اللہ اپنی کتاب"الصلاۃ"میں لکھتے ہیں:

"حدیث میں آیا ہے: "جس نے نماز ترک کردی اس کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں"۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اپنے دور خلافت میں چاروں طرف کے اپنے عمال کو لکھا کرتے تھے:"میری نظر میں تمھاری تمام ذمہ داریوں میں سب سے اہم نماز ہے،جس نے اس کی حفاظت کی،اس نے اپنے دین کی حفاظت کی اور جس نے اسے ضائع کردیا ،وہ دوسری ذمہ داریوں کو کچھ زیادہ ہی ضائع کرنے والا ہوگا۔ جس نے نماز ترک کردی اس کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں"۔امام احمد آگے مزید فرماتے ہیں:"ہر وہ شخص جو نماز کا استخفاف کرتا ہے اور اس کی اہانت کرتا ہے،سمجھ لو کہ وہ اسلام کا استخفاف اور اس کی اہانت کرتا ہے۔لوگوں کا اسلام میں اتنا ہی حصہ ہے جتنا ان کا حصہ نماز میں ہے۔اسلام سے ان کی رغبت اسی قدر ہے جس قدر ان کی رغبت نماز سے ہے۔اللہ کے بندے!اپنے آپ کو پہچانو اور اس بات سے ڈرو کہ کہیں ایسا نہ ہوکہ تم اللہ سے اس حال میں ملاقات کرو کہ تمھاری نظر میں اسلام کی کوئی وقعت نہ ہو۔تمھارے دل میں اسلام کی عزت اسی قدر ہوگی جس قدر عزت تمھارے دل میں نماز کی ہے۔حدیث میں آیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:"نماز دین کا ستون ہے"۔کیا تمھیں معلوم نہیں کہ خیمے کو کھڑا رکھنے والے ستون جب گر جاتے ہیں تو اس کی طنابیں اور میخیں کوئی فائدہ نہیں دیتیں لیکن جب خیمے کے ستون کھڑے رہتے ہیں تو خیمے کی طنابیں اور میخیں بھی فائدہ دیتی ہیں۔اسلام میں نماز کو یہی مقام حاصل ہے۔حدیث میں آیا ہے:"بندے سے اس کے اعمال میں سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال کیا جائے گا۔اگر اس کی نماز قبول کرلی گئی تو باقی اعمال بھی قبول کرلیے جائیں گے"۔نماز ہمارے دین کی آخری کڑی ہے اور کل قیامت کے دن سب سے پہلے ہم سے نماز کے بارے میں پوچھا جائے گا۔نماز کے غائب ہونے سے نہ اسلام بچے گا اور نہ دین  اور اسلام کو ختم کرنے والی آخری چیز نماز ہی ہے"۔(3)

اللہ کے بندو!مسلمانوں کے درمیان اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ جان بوجھ کو فرض نماز کا چھوڑنا اکبر الکبائر اور سب سے بڑا گناہ ہے۔اس کا گناہ اللہ کی نظر میں کسی بے گناہ کو قتل کرنے اورمال لوٹنےسے زیادہ سنگین ہے،اسی طرح اللہ کے نزدیک اس کا گناہ زنا،چوری اور شراب نوشی سے بھی بڑا ہے۔نماز چھوڑنے والا اللہ کے عذاب اور اس کے غضب کا مستحق بنتا ہے اور یہ گناہ اس کے لیے دنیا وآخرت میں ذلت ورسوائی کا باعث ہے۔

البتہ اس مسئلے میں علمائے اسلام کی آراء مختلف ہیں کہ بے نمازی کو قتل کیا جائے گا یا نہیں؟قتل کیے جانے کی صورت میں اس کا کیا طریقہ اختیار کیا جائے گا؟نماز چھوڑنا کفر ہے یا نہیں؟ان مسائل میں ان کے اقوال اور دلائل تفصیل سے اہل علم کی کتابوں میں ملتے ہیں ،یہاں ان کو ذکر کرنے کی گنجائش نہیں۔ہاں جو اہل علم تارک نماز کو کفر کا مرتکب قرار دیتے ہیں،انھوں نے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ سے اس کے لیے مضبوط دلائل دیے ہیں۔اللہ کے بندو!ان دلائل کو پڑھنے کے بعد ایک مسلمان کے دل میں نماز کی محبت پیدا ہوتی ہے،نماز کی عظمت کا احساس ہوتا ہے اور اس کی قدرومنزلت دل میں جاگزیں ہوتی ہے۔اس سے دل میں یہ جذبہ پیدا ہوتا ہے کہ محبت سے نماز کی محافظت کی جائے،اس کا زیادہ سے زیادہ خیال رکھا جائے اور اللہ نے جس طرح اسے اوقات کی پابندی کے ساتھ فرض کیا ہے،اسی طرح اسے ادا کیا جائے۔بعض دلائل ذیل میں پیش کیے جارہے ہیں:

اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا:

﴿ كُلُّ نَفْسٍؚبِمَا كَسَبَتْ رَہِيْنَۃٌ۝۳۸ۙاِلَّآ اَصْحٰبَ الْيَمِيْنِ۝۳۹ۭۛفِيْ جَنّٰتٍ۝۰ۣۭۛ يَتَسَاۗءَلُوْنَ۝۴۰ۙعَنِ الْمُجْرِمِيْنَ۝۴۱ۙمَا سَلَكَكُمْ فِيْ سَقَرَ۝۴۲قَالُوْا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّيْنَ۝۴۳ۙوَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِيْنَ۝۴۴ۙوَكُنَّا نَخُوْضُ مَعَ الْخَاۗىِٕضِيْنَ۝۴۵ۙوَكُنَّا نُكَذِّبُ بِيَوْمِ الدِّيْنِ۝۴۶ۙحَتّٰٓي اَتٰىنَا الْيَقِيْنُ۝۴۷ۭ(4)

"ہر متنفس، اپنے کسب کے بدلے رہن ہے۔دائیں بازو والوں کے سوا۔جو جنتوں میں ہوں گے وہاں وہ مجرموں سے پوچھیں گے: ‘‘تمہیں کیا چیز دوزخ میں لے گئی؟وہ کہیں گے ‘‘ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہ تھےاور مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھےاور حق کے خلاف باتیں بنانے والوں کے ساتھ مل کر ہم بھی باتیں بنانے لگتے تھےاور روز جزا کو جھوٹ قرار دیتے تھےیہاں تک کہ ہمیں اُس یقینی چیز سے سابقہ پیش آ گیا"۔

اس آیت میں اللہ نے خبر دی ہے کہ نماز کا تارک ان مجرمین میں شامل ہے جو "سقر"میں جائیں گے اور "سقر"جہنم کی ایک وادی کا نام ہے۔

ایک دوسری جگہ اللہ نے فرمایا:

﴿ فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا (5)

" پھر ان کے بعد وہ نا خلف لوگ ان کے جانشین ہوئے جنھوں نے نماز کو ضائع کیا اور خواہشاتِ نفس کی پیروی کی، پس قریب ہے کہ وہ گمراہی کے انجام سے دوچار ہوں"۔

سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے "غیاً"کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ جہنم کی ایک نہر کا نام ہے جس کے پانی کا مزہ انتہائی برا ہوگا اور وہ نہر بہت گہری ہوگی۔افسوس!اس شخص کی مصیبت کتنی بھیانک ہوگی جو اس میں ڈالا جائے گا اور اس کے صدمے کا عالم کیا ہوگا جو اس میں داخل کیا جائے گا۔

ایک تیسری جگہ اللہ نے فرمایا:

﴿ فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ فَاِخْوَانُكُمْ فِي الدِّيْنِ (6)

" پس اگر یہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں تو تمہارے دینی بھائی ہیں"۔

اللہ نے ان سے دینی اخوت کے رشتے کو نماز کی ادائیگی پر موقوف کردیا ہے ۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اگر وہ نماز نہیں ادا کرتے تو وہ مسلمانوں کے دینی بھائی نہیں ہیں۔

اللہ کا ارشاد ہے:

﴿ اِنَّمَا يُؤْمِنُ بِاٰيٰتِنَا الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِّرُوْا بِہَا خَرُّوْا سُجَّدًا وَّسَبَّحُوْا بِحَمْدِ رَبِّہِمْ وَہُمْ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ (7)

" ہماری آیات پر تو وہ لوگ ایمان لاتے ہیں جنھیں یہ آیات سنا کر جب نصیحت کی جاتی ہے تو سجدے میں گر پڑتے ہیں اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے ہیں اور تکبر نہیں کرتے"َ۔

اللہ فرماتا ہے:

﴿ وَاِذَا قِيْلَ لَہُمُ ارْكَعُوْا لَا يَرْكَعُوْنَ۝۴۸ وَيْلٌ يَّوْمَىِٕذٍ لِّلْمُكَذِّبِيْنَ۝۴۹(8)

" جب اِن سے کہا جاتا ہے کہ (اللہ کے آگے) جھکو تو نہیں جھکتے,تباہی ہے اُس روز جھٹلانے والوں کے لیے

مذکورہ بالا آیت اس آیت کے بعد آئی ہے:

﴿ كُلُوْا وَتَمَتَّعُوْا قَلِيْلًا اِنَّكُمْ مُّجْرِمُوْنَ (9)

" کھا لو اور مزے کر لو تھوڑے دن حقیقت میں تم لوگ مجرم ہو"۔

یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ تارک نماز مجرم ہے اور جب وہ اللہ تبارک وتعالیٰ سے ملاقات کرے گا تو سخت عذاب کا مستحق قرار پائے گا۔

امام مسلم نے اپنی صحیح میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

بَيْنَ الرَّجُلِ وَبَيْنَ الشِّرْكِ وَالْكُفْرِ تَرْكُ الصَّلَاةِ ۔ (10)

"آدمی اور شرک وکفر کے درمیان فرق کرنے والی چیز ترک نماز ہے"۔

امام احمد اور کتب سنن کے محدثین نے صحیح سند کے ساتھ عبداللہ بن بریدہ عن أبیہ سے حدیث روایت کی ہے،وہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے سنا:

الْعَهْدُ الَّذِي بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ الصَّلَاةُ فَمَنْ تَرَكَهَا فَقَدْ كَفَرَ.(11)

"ہمارے اور ان کے درمیان جو عہد ہے وہ نماز ہے،جس نے نماز چھوڑ دی اس نے کفر کیا"۔

امام احمد،ابن حبان اور طبرانی نے جید اسناد کے ساتھ عبداللہ بن عمرو بن عاص کی حدیث بیان کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک دن نماز کا ذکرکرتے ہوئے فرمایا:

        مَنْ حَافَظَ عَلَيْهَا كَانَتْ لَهُ نُورًا وَبُرْهَانًا وَنَجَاةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَمَنْ لَمْ يُحَافِظْ عَلَيْهَا لَمْ يَكُنْ لَهُ نُورٌ وَلَا بُرْهَانٌ وَلَا نَجَاةٌ وَكَانَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَعَ قَارُونَ وَفِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَأُبَيِّ بْنِ خَلَفٍ  .(12) 

"جس نے نماز کی حفاظت کی تو وہی نماز قیامت کے دن اس کے لیے روشنی،دلیل اور ذریعہ نجات بنے گی اور جس نے اس کی حفاظت نہیں کی تو وہ قیامت کے دن نہ اس کے لیے روشنی اور دلیل بنے گی اور نہ نجات کا ذریعہ اور اس کا حشر قارون،فرعون،ہامان اور ابی بن خلف کے ساتھ ہوگا"۔

امام احمد نےسیدنا معاذبن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((مَنْ تَرَكَ صَلَاةً مَكْتُوبَةً مُتَعَمِّدًا فَقَدْ بَرِئَتْ مِنْهُ ذِمَّةُ اللَّهِ )) (13)

"جس نے ایک بھی فرض نماز جان بوجھ کر چھوڑ دی تو اس سے اللہ کا ذمہ اٹھ گیا".

امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((مَنْ صَلَّى صَلَاتَنَا وَاسْتَقْبَلَ قِبْلَتَنَا وَأَكَلَ ذَبِيحَتَنَا فَذَلِكَ الْمُسْلِمُ الَّذِي لَهُ ذِمَّةُ اللَّهِ وَذِمَّةُ رَسُولِهِ فَلَا تُخْفِرُوا اللَّهَ فِي ذِمَّتِهِ )) .(14)

"جو ہماری نماز جیسی نماز پڑھے،ہمارے قبلے کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرے اور ہمارے ہاتھ کا ذبیحہ کھائے تو وہ ایسا مسلمان ہے جسے اللہ اور اس کے رسول کا ذمہ حاصل ہے لہذا اس ذمہ کے تئیں اللہ سے بدعہدی نہ کرو۔"

امام احمد نے اپنی مسند میں،امام مالک نے اپنی مؤطا میں اور امام نسائی نے اپنی سنن میں صحیح سند کے ساتھ سیدنا محجن اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کی ہے ،ان کا بیان ہے کہ وہ ایک دن رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے ۔اسی دوران اذان ہوئی۔رسول اللہ ﷺ نماز کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔نماز ادا کرنے کے بعد لوٹے تو دیکھا کہ محجن اپنی جگہ بیٹھے ہوئے ہیں۔آپ نے ان سے پوچھا:نماز پڑھنے سے کس چیز نے تمھیں روکے رکھا،کیا تم مسلمان نہیں ہو؟انھوں نے جواب دیا:کیوں نہیں میں مسلمان ہوں،البتہ نماز میں نے اپنے گھر والوں میں ادا کرلی تھی۔ان کا جواب سن کر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

إِذَا جِئْتَ فَصَلِّ مَعَ النَّاسِ وَإِنْ كُنْتَ قَدْ صَلَّيْتَ )) .(15)

"جب تم مسجد آؤ تو لوگوں کے ساتھ نماز پڑھ لیا کرو اگر چہ تم نے وہ نماز پڑھ لی ہے"۔

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے اس مفہوم کے آثار واقوال بہ کثرت منقول ہیں۔ذیل میں ان میں سے بعض اقوال وآثار پیش کیے جارہے ہیں:سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

" لا حظ في الإسلام لمن ترك الصلاة "(16)

"جس نے نماز چھوڑ دی اس کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں ہے۔"

آپ رضی اللہ عنہ کا یہ بھی ارشاد ہے:

" لا إسلام لمن ترك الصلاة "(17)

"جس نے نماز چھوڑ دی اس کا کوئی اسلام نہیں ہے۔"

آپ نے یہ بات صحابۂ کرام کے ایک مجمع میں بیان فرمائی لیکن کسی نے اس حقیقت سے انکار نہیں کیا۔بلکہ اسی طرح کا قول سیدنا معاذ بن جبل،سیدنا عبدالرحمن بن عوف،سیدنا ابوہریرہ اور سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہم اور بعض دوسرے صحابہ سے بھی منقول ہے۔

امام مسلم نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

         مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَلْقَى اللّٰهَ غَدًا مُسْلِمًا فَلْيُحَافِظْ عَلَى هَؤُلَاءِ الصَّلَوَاتِ حَيْثُ يُنَادَى بِهِنَّ- أي في المساجد - فَإِنَّ اللّٰهَ شَرَعَ لِنَبِيِّكُمْ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُنَنَ الْهُدَى وَإِنَّهُنَّ مِنْ سُنَنِ الْهُدَى وَلَوْ أَنَّكُمْ صَلَّيْتُمْ فِي بُيُوتِكُمْ كَمَا يُصَلِّي هَذَا الْمُتَخَلِّفُ فِي بَيْتِهِ لَتَرَكْتُمْ سُنَّةَ نَبِيِّكُمْ وَلَوْ تَرَكْتُمْ سُنَّةَ نَبِيِّكُمْ لَضَلَلْتُمْ وَمَا مِنْ رَجُلٍ يَتَطَهَّرُ فَيُحْسِنُ الطُّهُورَ ثُمَّ يَعْمِدُ إِلَى مَسْجِدٍ مِنْ هَذِهِ الْمَسَاجِدِ إِلَّا كَتَبَ اللّٰهُ لَهُ بِكُلِّ خَطْوَةٍ يَخْطُوهَا حَسَنَةً وَيَرْفَعُهُ بِهَا دَرَجَةً وَيَحُطُّ عَنْهُ بِهَا سَيِّئَةً ، وَلَقَدْ رَأَيْتَنَا - يعني أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم - وَمَا يَتَخَلَّفُ عَنْهَا إِلَّا مُنَافِقٌ مَعْلُومُ النِّفَاقِ ، وَلَقَدْ كَانَ الرَّجُلُ يُؤْتَى بِهِ يُهَادَى بَيْنَ الرَّجُلَيْنِ حَتَّى يُقَامَ فِي الصَّفِّ)) (18)

            "جو اس بات سے خوشی محسوس کرتا ہو کہ آنے والے کل میں اللہ سے جب ملاقات کرے تو مسلمان ہو تو اسے چاہئے کہ جب مساجد سے اذان دی جائے تو ان نمازوں کی حفاظت کرے۔کیوں کہ اللہ نے تمھارے نبی کے لیے ہدایت کے طریقے متعین فرمائے ہیں،یہ نمازیں انھی طریقوں میں سے ایک ہیں۔اگر نماز سے پیچھے رہ جانے والے اس شخص کی طرح تم بھی اپنے گھروں میں نمازیں ادا کرنے لگو گے تو اپنے نبی کی سنت چھوڑ بیٹھو گے۔اور اگر نبی کی سنت چھوڑ دوگے تو گمراہ ہوجاؤ گے ۔جو بھی مسلمان خوب طہارت حاصل کرتا ہے،پھر اچھی طرح وضوکرتا ہے اور پھر ان مساجد میں سے کسی ایک مسجد میں نماز کے لیے جاتا ہے تو اس کے ہر اٹھنے والے قدم پر ایک نیکی ملتی ہے ، اس کا ایک درجہ بلند ہوتا ہےاور اس کا ایک گناہ معاف کردیا جاتا ہے۔ تم نے ہم اصحاب رسول ﷺ کو دیکھا ہے ،نماز سے وہی شخص پیچھے رہا کرتا تھا جو منافق ہوتا تھا اور جس کا نفاق جگ ظاہر تھا۔حالت یہ تھی کہ ایک شخص دوآدمیوں کے کندھوں کے سہارے لایا جاتا تھا اور اسے صف میں کھڑا کردیا جاتا تھا"۔

        جب یہ حالت اس شخص کی ہے جو نماز باجماعت میں شریک نہیں ہوتا اور ایسے شخص کو صحابہ کرام منافقین میں شمار کرتے تھے جن کا نفاق جگ ظاہر تھاتو اندازہ کیجیے اے اللہ کے بندو! اس شخص کا کیا حال ہوگا جو تارک نماز ہے۔ہم اس گناہ عظیم سے اللہ سے عافیت اور سلامتی کی دعا کرتے ہیں۔

اللہ کے بندو!اسلام میں میزان نماز بہت عظیم ہے اور اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے ۔اللہ تعالیٰ نے یہ نماز اپنے نبی پر بغیر کسی واسطہ کے ساتوں آسمانوں کے اوپراس وقت فرض کی تھی جب آپ ﷺ کو معراج پر بلایا تھا۔نماز کی فضیلت،اس کی عظمت اور اس کے تارک کے تعلق سے سخت سزا کی وعید پر مشتمل جن قرآنی آیات اور احادیث صحیحہ کا تذکرہ ہوچکا ہے،ان کے علاوہ بھی بہت سی آیات اور احادیث ہیں جو اس مضمون کو واضح اور روشن کرتی ہیں۔

اللہ کے بندو!اس اہمیت اور تاکید کے باوجود کتنے لوگ ایسے ہیں جنھوں نے میزان نماز کو ہلکا کررکھا ہے ،بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اس کی پرواہ نہیں کرتے  جب کہ ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو اس کی شرطوں،اس کے ارکان اور واجبات کی تکمیل کما حقہ نہیں کرتی ۔کچھ لوگ نماز باجماعت میں کاہلی اور سستی کرتے ہیں ۔یہ نفاق کی علامتوں میں سے ایک ہے۔اللہ کے بندو!ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اللہ کی اس عظیم اطاعت اور بڑی عبادت کی حفاظت کریں جو شہادتین کے بعد اسلام کا سب سے بڑا رکن ہےاور ایسے مجرمین کے راستے پر چلنے سے اجتناب کریں جن سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے سامنے جھک جاؤ لیکن وہ جھکنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿ حٰفِظُوْا عَلَي الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰى۝۰ۤ وَقُوْمُوْا لِلہِ قٰنِتِيْنَ (19)

" اپنی نمازوں کی نگہداشت رکھو، خصوصاً اس  نماز کی جو درمیان والی ہے، اللہ کے آگے اس طرح کھڑے ہو، جیسے فر ماں بردار غلام کھڑ ے ہوتے ہیں"۔

        اللہ تعالیٰ اپنی کتاب کی ہدایت سے مجھے اور آپ کو نفع پہنچائےاور ہمیں اپنے نبی ﷺ کی سنتوں کی پیروی کرنے کی توفیق دے اور ہم سب کو مجرمین اور جہنمیوں کے راستے سے محفوظ رکھے۔میں یہ بات کہتا ہوں،اپنے لیے ،آپ کے لیے اور تمام مسلمانوں کے لیے تمام گناہوں سے مغفرت طلب کرتا ہوں ۔لہذا اسی سے گناہوں کی مغفرت طلب کرو ،وہی مغفرت کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔

خطبۂ ثانیہ    

تمام حمد وشکر اس اللہ کے لیے ہےجس کا احسان عظیم ہے اور جس کا جود وکرم اور فضل وامتنان بڑا وسیع ہے۔میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ،وہ اکیلا ہے،اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔آپ پر،آپ کی آل پر اور آپ کے تمام صحابہ پر بے انتہاء رحمتیں اور سلام نازل ہوں۔حمد وصلوۃ کے بعد:

اللہ کے بندو!میں تمھیں اور اپنی ذات کو بھی وصیت کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا تقوی اختیار کیا جائے اور نماز کی حفاظت کی جائے کیوں کہ نماز دین کا ستون اور شہادتین کے بعد اسلام کا سب سے زیادہ تاکیدی رکن ہے۔بطور خاص اے اللہ کے بندو!نماز فجر کی حفاظت کرو جو دن کے آغاز اور اس کے اولین حصے میں ادا کی جاتی ہے۔نماز فجر کی حفاظت اس دن کے لیے انسان کی کامیابی اور اس کی سعادت کی علامت ہے۔جس کسی نے نماز فجر ضائع کردی ،اس نے وہ دن ضائع کردیا اور اس دن کی خیروبرکت سے ہاتھ دھوبیٹھا۔اللہ آپ کی حفاظت فرمائے ، ذرا میرے ساتھ اس حدیث پر غور کریں۔صحیح بخاری وصحیح مسلم میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

 ((يَعْقِدُ الشَّيْطَانُ عَلَى قَافِيَةِ رَأْسِ أَحَدِكُمْ إِذَا هُوَ نَامَ ثَلَاثَ عُقَدٍ ، يَضْرِبُ كُلَّ عُقْدَةٍ عَلَيْكَ لَيْلٌ طَوِيلٌ فَارْقُدْ ، فَإِنْ اسْتَيْقَظَ فَذَكَرَ اللّٰهَ انْحَلَّتْ عُقْدَةٌ ، فَإِنْ تَوَضَّأَ انْحَلَّتْ عُقْدَةٌ ، فَإِنْ صَلَّى انْحَلَّتْ عُقْدَةٌ فَأَصْبَحَ نَشِيطًا طَيِّبَ النَّفْسِ ، وَإِلَّا أَصْبَحَ خَبِيثَ النَّفْسِ كَسْلَانَ )) (20)

            "شیطان تم میں سے ہر شخص کی گدی پر تین گرہیں اس وقت لگادیتا ہے جب وہ سوجاتا ہے ۔ہر گرہ پر تھپکیاں دیتا ہے کہ ابھی رات بڑی طویل ہے سوتا رہ۔لیکن جب وہ نیند سے بیدار ہوکر اللہ کا ذکر کرتا ہے تو پہلی گرہ کھل جاتی ہے،جب وضوکرتا ہے تو دوسری گرہ کھل جاتی ہے  اور پھر جب نماز ادا کرتا ہے تو تیسری گرہ بھی کھل جاتی ہے ۔اس طرح جب اس کی صبح ہوتی ہے تو وہ اپنے اندر چستی محسوس کرتا ہے اور اس کا دل خوش گوار ہوتا ہے ورنہ اس کی صبح بڑے برے دل کے ساتھ ہوتی ہے اور وہ سستی اور کاہلی محسوس کرتا ہے"۔

یہ حالت ہے نماز فجر چھوڑنے والے کی،اس کا نفس خباثت سے آلودہ ہوجاتا ہےاور اس کا پورا دن سستی اور کاہلی میں گزرتا ہے۔اس کے برعکس جب ایک مسلمان نماز فجر کی حفاظت کرتے ہوئے وقت پر مسلمانوں کے ساتھ باجماعت اسے ادا کرلیتا ہے تو وہ دن اس کے لیے باعث سعادت اور سراپا خیر وبرکت بن جاتا ہے۔

اسی طرح اس حدیث پر بھی غور کرو جو امام بخاری اور امام مسلم نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے،وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے سامنے ایک ایسے شخص کا تذکرہ کیا گیا جو رات میں سویا اور صبح تک سوتا ہی رہا۔آپ ﷺ نے اس کے متعلق فرمایا:

ذَاكَ رَجُلٌ بَالَ الشَّيْطَانُ فِي أُذُنَيْهِ أَوْ قَالَ فِي أُذُنِهِ ۔(21)

"وہ ایسا شخص ہے جس کے دونوں کانوں /کان میں شیطان نے پیشاب کردیا ہے"

اہل علم نے یہ بات بیان کی ہے کہ شیطان حقیقت میں اس کے کان میں پیشاب کرکے چلاجاتا ہے۔ذرا سوچیں !جس انسان کے کان میں شیطان پیشاب کردے ،اس کی کیا حالت بنے گی اور یہ حال اس شخص کا ہے جو نماز فجر کا چھوڑنے والا ہے۔

اللہ کے بندو!اپنے نفس کا محاسبہ کرو،اس سے پہلے کہ اس کا محاسبہ کیا جائے اور اس کو خود تول لو اس سے پہلے کہ اسے تولا جائے۔نماز کی عظمت کو پہچانو کیوں کہ نماز کی عظمت کا ادراک تقوی کی علامت ہے۔

اللہ کے بندو!.نماز فجر باجماعت کی حفاظت ایمان کی صداقت کی علامت ہےاور اسلام کے مستحکم ہونے کی دلیل ہے  لیکن جب کوئی مسلمان نماز فجر کی جماعت میں حاضر نہیں ہوتا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا ایمان کمزور ہے اور اس کے دل میں ایمانی ضعف ہے  اور یہ اس بات کی بھی علامت ہے کہ وہ اپنے نفس اور خواہش کا غلام بن چکا ہے اور اس کی خواہشات نے اسے شکست دے دی ہے۔اللہ کے بندو!نماز فجر سے پیچھے رہ جانے والا کیوں کر اپنی نیند کو خوش گوار بناسکتا ہے اور اپنے بستر پر کیسے لذت محسوس کرسکتا ہے جب کہ دوسرے مسلمان اس وقت اللہ کے گھروں یعنی مسجدوں میں قرآن فجر کے ساتھ ہوتے ہیں،خطاب الٰہی کی سماعت سے لطف اندوز ہورہے ہوتے ہیں اور اللہ کے باغوں کی خوش گوار فضا میں تفریح کررہے ہوتے ہیں۔نیند اور بستر کی لذت کو مناجات الٰہی ،عبادت اور اس عظیم اطاعت کی ادائیگی کی لذت پر ترجیح دی جاسکتی ہے۔ایسا وہی شخص کرسکتا ہے جو انتہائی بدقسمت اور تمام سعادتوں سے محروم ہے۔

 ہم اللہ جل وعلا سے اس کے اسمائے حسنی اور صفات علیا کے وسیلے سے دعا کرتے ہیں کہ ہمیں اور آپ کو مجرموں کی راہ پر چلنے سے محفوظ رکھے،خراب اور ٹیڑھے راستے سے بچائے،ہمیں اور آپ کو اپنی اطاعت کے کاموں کی حفاظت کرنے کی توفیق دے،نماز کی محافظت کرنے کی ہمیں اور آپ کو توفیق دے۔اے اللہ !ہمیں نماز قائم کرنے والا بنادے، اے اللہ !ہمیں نماز قائم کرنے والا بنادے، اے اللہ !ہمیں نماز قائم کرنے والا بنادے،اے اللہ!ہمیں نمازوں کی حفاظت کرنے کی توفیق ارزانی فرما اور ان کو اس طرح ادا کرنے کی توفیق دے جس کو تو پسند کرتا ہے اور جس سے تو راضی ہے۔اے اللہ!ہمیں اس عبادت اور دوسری تمام عبادات کی ادائیگی کی توفیق عطا فرما تو ہی عظمت وجلال والا ہے،اے اللہ!ہم اپنے نفس کی شرانگیزیوں، اپنے اعمال کی برائیوں اور ہر بری چیز کے شر سےتیری پناہ چاہتے ہیں تو ہی سارے جہان کا پالنے والا ہے۔اللہ کے بندو!اللہ تمھارے اوپر رحم فرمائے،تم نمازیوں کے امام محمد بن عبداللہ ﷺ پر ٹھیک اسی طرح درود وسلام بھیجو جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد میں حکم دیا ہے:

﴿ اِنَّ اللہَ وَمَلٰۗىِٕكَتَہٗ يُصَلُّوْنَ عَلَي النَّبِيِّ۝۰ۭ يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا (22)

" اللہ اور اس کے فرشتے نبی ﷺ پر درود بھیجتے ہیں، اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو"۔

اور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے:

 (( مَنْ صَلَّى عَلَيَّ صَلاةً صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ بِهَا عَشْرًا))(23)

"جس نے میرے اوپر ایک مرتبہ درود بھیجا،اللہ اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا۔"  .

اے اللہ!رحمت نازل فرما محمد ﷺ پر اور محمد ﷺ کی آل پر جس طرح رحمت نازل کی تونے ابراہیم علیہ السلام اور آل ابراہیم علیہ السلام پر تو ستودہ صفات اور بزرگ ہے، اے اللہ!درود نازل فرما محمد ﷺ پر اور محمد ﷺ کی آل پر جس طرح درودنازل کی تونے ابراہیم علیہ السلام اور آل ابراہیم علیہ السلام پر تو ستودہ صفات اور بزرگ ہے۔(ترجمہ وترتیب حواشی:رفیق احمد رئیس سلفی)

حواشی:

(1)  المعجم الأوسط للطبرانی،رقم الحدیث:2292،المعجم الصغیر للطبرانی،رقم الحدیث:162،مسند الفردوس للدیلمی، رقم الحدیث6492:،الترغیب       والترہیب للمنذری،190/1،261/1۔امام منذری نے اس حدیث کی سند کو صحیح یا حسن یا ان کے قریب بتایا ہے جب کہ علامہ البانیؒ نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔ملاحظہ کریں:ضعیف الترغیب،رقم الحدیث:302،213۔امام مروزی نے "تعظیم قدر الصلوۃ"(رقم :945)میں سیدنا   ابودرداء رضی اللہ عنہ کا ایک قول"لا ایمان لمن لاصلاۃ لہ"کے الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے۔اس اثر کو علامہ البانیؒ نے "صحیح الترغیب"(رقم:574)میں صحیح قرار دیا ہے۔

(2)مؤطا امام مالک، رقم الحدیث:79،ارواء الغلیل للألبانی،225/1،علامہ البانیؒ نے اس اثر کو صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی شرط کے مطابق بتاکر صحیح کہا ہے۔

(3) رسالۃ الصلاۃ للامام المبجل أحمد بن حنبل،تحقیق:أحمد بن صالح الزہرانی،سنۃ1420،ص:83.82۔

(4)[المدثر:38.47/74]

(5)[مريم:59/19]

(6)[التوبة:11/9]

(7)[السجدة:/3215]

(8)[المرسلات:48.49/77]

(9)[المرسلات:46/77]

(10)(صحیح مسلم،رقم الحدیث:82)

(11)(صحیح الترمذی،رقم الحدیث:2621،صحیح النسائی،رقم الحدیث:462،صحیح ابن ماجہ،رقم                      الحدیث:891)

(12)(مسند أحمد 83/10،احمد شاکر نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔صحیح ابن حبان،رقم الحدیث:1467

(13)مسند أحمد،رقم الحدیث:21974،مسند کے محقق حمزہ أحمد زین نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔

(14)صحیح البخاری،رقم الحدیث:391

(15)صحیح النسائی،رقم الحدیث:856

(16)ارواء الغلیل225/1،علامہ البانی نے اس اثر کی سند کو شیخین کی شرط کے مطابق بتاکر صحیح کہا ہے۔

(17)ملاحظہ ہو حاشیہ نمبر۱

(18)صحیح مسلم،رقم الحدیث:654

(19)[البقرة:238/2]

(20)صحیح البخاری،رقم الحدیث:1142،صحیح مسلم،رقم الحدیث:776

(21)صحیح البخاری،رقم الحدیث:3270،صحیح مسلم،رقم الحدیث:774

(22)[الأحزاب:56/33]

(23)صحیح مسلم،رقم الحدیث:384

   

 

 

آپ کا ردعمل کیا ہے؟

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow