عورتوں کی تعلیم
اسلام کی آمدسے قبل سرزمین عرب میں ساری برائیاں پائی جاتی تھیں،وہاں پر بداخلاقی تھی ،بداعمالی تھی ، شراب نوشی تھی ، ظلم وجورتھا،قتل وغارت گری تھی ، سماج ومعاشرہ انتہائی پراگندہ ہوچکاتھا،مذہب اسلام نے اس زمانہ کو زمانہ جاہلیت سے تعبیر کیاہے۔اس کا مطلب صاف ہے کہ تمام برائیوں ،بے حیائیوں اور ناانصافیوں کا سرچشمہ جہالت ہے اور جہالت کا خاتمہ تعلیم سے ہی ممکن ہے ۔اسی لئے تعلیم کو مذہب اسلام نے بنیادی سرچشمہ قراردیاہے۔
عورتوں کی تعلیم
"… خالد انور پورنوی
تعلیم زندگی ہے اور جہالت موت،تعلیم سے زندگی سنورتی ہے اور جہالت سے امور بگڑتے ہیں ۔جہاں تعلیم ہے وہاں روشنی ہے اور جہاں جہالت ہے وہ ایک اندھیرنگری ہے ۔تعلیم ایک فطری چیز ہے اور جس قوم نے اس فطرت کو قبول کیا وہ ترقی کرتی چلی گئی ۔اسی لئے کہتے ہیں :قوموں کی ترقی کا پہلازینہ تعلیم ہے۔
اسلام کی آمدسے قبل سرزمین عرب میں ساری برائیاں پائی جاتی تھیں،وہاں پر بداخلاقی تھی ،بداعمالی تھی ، شراب نوشی تھی ، ظلم وجورتھا،قتل وغارت گری تھی ، سماج ومعاشرہ انتہائی پراگندہ ہوچکاتھا،مذہب اسلام نے اس زمانہ کو زمانہ جاہلیت سے تعبیر کیاہے۔اس کا مطلب صاف ہے کہ تمام برائیوں ،بے حیائیوں اور ناانصافیوں کا سرچشمہ جہالت ہے اور جہالت کا خاتمہ تعلیم سے ہی ممکن ہے ۔اسی لئے تعلیم کو مذہب اسلام نے بنیادی سرچشمہ قراردیاہے۔
خالق کائنات نے جب حضرت آدم علیٰ نبیناعلیہ الصلوۃ والسلام کو پیداکیا،تو سب سے پہلے تعلیم کا بندو بست کیا، انہیں چیزوں کے نام سکھائے ،پھر فرشتوں سے مقابلہ کرایا،کامیاب ہوئے تو خلافت سے بہرہ ور کیااور مسجود ملائکہ کے شرف سے نوازا،اس کے بعد رہنے ، سہنے کا انتظام کیا۔
تعلیم انسان وحیوان میں فرق وامتیاز پیداکرتی ہے ،تعلیم ہی کے ذریعہ انسان انسانیت کے آداب واصول کو سیکھتاہے ، اسے سنوارتاہے اور سجاتاہے۔تعلیم ہی سے انسان اپنے مقام ومرتبہ کو پہچانتاہے اور جہاں تعلیم نہ ہو نہ دنیاہاتھ آتی ہے اور نہ دین ۔
دنیاایک تعلیم گاہ ہے ،ایک مدرسہ ہے ،ایک سیکھنے کی جگہ ہے۔تمام انسان طالب علم ہیں۔انبیاء کرام خصوصی شا گر د ہیں اور تمام انسانوں کو پیداکرنے والی ذات ہی معلم ہے۔دنیاکی پیدائش ہی تعلیم کے مقصد سے ہوئی ہے ،طالب علموں کی سہولت اور کھانے پینے کے لیے زمین بنائی گئی ،مطالعہ کے لیے روشنی کی ضرورت پڑسکتی تھی تو چاند ،سورج ،اور ستارے پیداکئے گئے ہیں ۔تعلیم کے بارے میں سب سے پہلا امتحان قبر میں ہوگا،اور فائنل امتحان میدان محشر میں۔
مردوعورت کی تفریق کئے بغیر تعلیم سب پر ضروری ہے ،سب پڑھیں ،سب بڑھیں یہی مذہب اسلام کا اولین حکم ہے ۔اللہ کے رسول سرکار دوعالم ﷺ پر جو سب سے پہلی وحی نازل ہوتی ہے ’’پڑھو‘‘اوروحی نبوت کی زبان سے یہ فرمان بھی جاری ہوتاہے:کہ علم کا حاصل کرناہرمسلمان پر فرض ہے ‘‘خود خالق کائنات نے ایک جگہ ارشاد فرمایاہے:ان سے پوچھو کیاجاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں برابرہوسکتے ہیں۔
مذہب اسلام جس کی بنیاد ہی تعلیم ہے ؛افسوس کی بات ہے کہ اسی مذہب کے ماننے والے تعلیمی اعتبارسے سب سے پیچھے ہیں،سچرکمیٹی رپورٹ ایک آئینہ کی طرح ہماری حقیقت اور تعلیمی صورتِ حال کو واشگاف کرتی ہے اور اس شرمندگی کو ہمیں باربار سنناپڑتی ہے کہ مسلمانوں کی تعلیمی شرح سب سے کم ہے اور عورتوں کی تعلیم ہے بھی تو برائے نام ہے اور بس !
ایک رپورٹ کے مطابق 25%مسلم بچے اور بچیاں ایسے ہیں جو اسکول گئے ہی نہیں،یاگئے بھی ہیں تو بیچ میں چھوڑدیا،59%مسلم لڑکیاں آج بھی اسکول نہیں جاتی ہیں ۔پندرہ ریاستوں میں مسلم خواتین کی شرح خواندگی 50%سے بھی کم ہے ،مدارس میں 4%بچے اور بچیاں ہی تعلیم حاصل کرتی ہیں ،یہ صورت حال انتہائی افسوس ناک اور مایوس کن ہے۔
جب کہ عورتوں کے لیے تعلیم بے حد ضروری ہے ،قوموں کی تعلیم ؛ماں کی تعلیم پر موقوف ہے ،ماں تعلیم یافتہ ہوگی تو بچے کو بھی تعلیم سے آشناکرے گی ،اگر ماں کے دلوں میں تعلیمی رغبت موجود ہو تو بچے بھی اس رغبت سے فیضیاب ہوں گے،اگر ماں خود رغبت سے خالی ہوتو ظاہر ہے کہ اس کی کوکھ سے پیداہونے والے بچوں سے مستقبل کی کیا امید کی جاسکتی ہے ؟
ہرکامیاب شخص کے پیچھے کسی عورت کا ہاتھ ہوتاہے ،وہ بہترین ماں بن کر بہترین کردار اداکرسکتی ہے تو شریک حیات بن کر اپنے رفیق حیات کی چین وسکون کا باعث بھی بن سکتی ہے ،اس کے کئی رنگ وروپ ہوتے ہیں ، وہ ماں بھی ہے ،بیٹی بھی ہے ، بہن بھی ہے ،اور بیٹی بھی ہے،اور کسی بھی کردار کے اداکرنے میں زیور علم سے آراستہ ہوناضروری ہے ۔
انسانی زندگی کی ابتداء ماں کے بطن سے ہوتی ہے ،ماں کے پیٹ سے پیداہوکرانسان دنیامیں آتاہے ،اسی لئے ماں کی گود کو انسان کی پہلی درسگاہ کہاجاتاہے اور ظاہر ہے مدرسہ میں تعلیم بہتر اسی وقت ہوسکتی ہے جب کہ معلم اچھے ہوں ،اور جس گھر میں مائیں معلمہ ہوتی ہیں ،یعنی وہ پڑھی لکھی تعلیم وتربیت سے معمور ہوتی ہیں،وہاں ایک دینی وتعلیمی ماحول دیکھنے کو ملتا ہے ،اور جہاں پر مائیں تعلیم وتربیت سے عاری ،بداخلاق وبدکردار ہوتی ہیں ،بچے بھی اس کے اثرات قبول کرتے ہیں۔ہماری مسلم عورتوں کو اکثریہ خلجان وشبہ رہتاہے کہ ترقی اور علم وفضل کا میدان صرف مردوں کے لیے ہے ، عورتیں گھر میں بیٹھنے والی اور کچن روم سنبھالنے کے لیے ہیں،اسے علم سے کیاواسطہ ؟مگر سچائی اور مذہب اسلام کی تعلیمات اس کے بالکل برعکس ہیں۔
ابتدائے اسلام میں پانچ خواتین :ام کلثوم ،عائشہ بنت سعد،مریم بنت مقداد ،شفاء بنت عبد اللہ ،عائشہ بنت ابی بکر،پڑھی لکھی تھیں،اللہ کے رسول ﷺ کی ازواج مطہرات بالخصوص حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بہت بڑی عالمہ تھیں ، کتب حدیث میں دوہزار دوسو دس روایتیں ان کی طرف سے ہیں ۔مردوں میں حضرت ابوہریرہ ، حضرت عبد اللہ بن عمر ، حضرت انس بن مالک کے علاوہ کوئی بھی اس تعداد روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے آگے نہیں بڑھ سکے ، اسی لئے بڑے بڑے صحابہ کرام جب کسی مسئلے میں حل نہیں نکال پاتے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے رجوع کرتے ،اللہ کے رسولﷺنے تو یہاں تک ارشاد فرمایاہے:کہ وحی کا آدھاعلم تمام صحابہ سے سیکھو اور آدھاحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سیکھو!
آپ ﷺ کے یہاں عورتوں کو سکھانے کے لیے ہفتہ میں ایک مجلس لگتی تھی ،جس میں عورتیں آتی تھیں اور انہیں سکھایاجاتاتھا،حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ راوی ہیں فرماتے ہیں : عورتیں نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئیں اورعرض کیا:یارسول اللہﷺ!مرد ہم سے آگے نکل گئے ،ہمارے استفادہ کے لیے بھی ایک دن مقررفرمادیجئے ، چنانچہ ان کے لیے بھی ایک دن متعین فرمادیا،اس دن آپﷺ انہیں نصیحت فرماتے اور انہیں اللہ کے احکام بتاتے ، آپ ﷺ کی ازواج مطہرات اس سلسلہ میں اہم رول اداکرتیں۔
آپﷺکی توجہات کا نتیجہ تھا کہ تمام اسلامی علوم وفنون ،تفسیر ،حدیث،فقہ ،فتاوی ،خطابت ، شاعری،اور طب وجراحت میں بے شمار صحابیات نے کمال حاصل کیا۔عہد نبوی کے بعد خلفاء راشدین کے دور میں بھی تعلیم پر بھرپور توجہ دی گئی ،حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے اپنی مملکت کے تمام اطراف میں یہ فرمان جاری کردیاتھاکہ اپنی خواتین کو سورۂ نو رضرورسکھاؤ،اس میں خانگی اورمعاشرتی زندگی کے متعلق بے شمار مسائل واحکام موجودہیں۔
قرآن وسنت کی اتنی تاکیداور نظائر وامثال کے باوجود آج ہم لڑکیوں کی تعلیم کے لیے غافل ہیں ،بعض لوگ تو کہتے ہیں کہ ہمیں اپنی بچیوں سے نوکری نہیں کرانی ہے ،ہمیں اپنی بیویوں کی کمائی نہیں کھانی ہے ،لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ ایک عورت کو تعلیم دلاناپورے خاندان کو تعلیم دلاناہے ،چونکہ ماں بچوں کی اولین درسگاہ ہے۔
عورتوں کے حقوق اور تعلیم کی آواز آج سب سے زیادہ مغرب کی طرف سے اٹھتی ہوئی سنائی دے رہی ہے ، جو کل تک عورتوں کو کمتر درجہ کی ایک مخلوق سمجھتا تھا ،کلیساکے پارلیامنٹ میں ا س بات پر زور دار بحث ہورہی تھی کہ عورت انسان بھی ہے یانہیں ہے ؟یورپ میں عورت کی اپنی کوئی مرضی نہ تھی ،جانوروں کی طرح وہ بازار میں بیچی اور خریدی جاتی تھی ، جدیددور کے یورپ کامایہ ناز فلسفی نطشے کہتاہے :کہ عورتیں دوستی کے قابل نہیں ،وہ محض بلیاں اور زیادہ سے زیادہ گائیں ہیں،ان سے دل بہلانے کے لیے ان کو کوڑا مارنا ضروری ہے۔عیسائیت میں ایک طبقہ ہے ترتولیاں :ان کا مانناہے کہ عورت شیطان کے آنے کا دروازہ ،شجر ممنوعہ کی طرف لیجانے والی،خداکے قانون کو توڑنے والی اور مردوعورت کو غارت کرنے والی ہے ،مگرمذہب اسلام آیا،دین رحمت کی بنیادپڑی ،اللہ کے رسول ﷺ کی بعثت ہوئی تو آپﷺ نے عورتوں کو وہ مقام ومرتبہ دیاجس کی دنیاپیاسی تھی ،ان کے حقوق دیے ، اور صاف طورپر ارشاد فرمادیا:اے لوگو!عورتوں کے بارے میں تم لوگ اللہ سے ڈرو!
عورتیں بھی اپنے حقوق کو پہچانیں ،اور رب کائنات نے شوہروں کے بارے میں ان پر جو ذمہ داری عائد کی ہے اسے پہچانیں ، باکرداراور ہمدردماں،صالح ونیک بیٹی،وفاشعاربہن،اور فرمابرداربیوی بن کر زندگی گذا ر یں ، اس کے لیے مذہب اسلام نے تعلیم کو عورتوں کے لیے ضروری قراردیا۔
مگر تعلیم کا مطلب یہ نہیں کہ عورتیں شتربے مہارکی آزاد ی کی دہائی دینے لگیں،پردہ،برقع اور دوپٹہ کی قید سے آزادہوجائیں،بن سنورکرعریاں اندازمیں اس طرح گھومیں ،پھریں اور پڑھنے ،پڑھانے کے لیے جائیں گویا ابھی کوئی دلہن بیوٹی پارلرسے آرہی ہو۔
عورتیں معاشرے کا نصف حصہ ہیں ،ظاہر ہے کہ ان کی تعلیم کے بغیر قوم اور معاشرے کی ترقی ناگزیرہے ، وہ دنیاوی اور دینی دونوں علوم سے مزین اور آراستہ ہوں،آج سماج ومعاشرہ کو اچھے ،ہمدرداور خواتین ڈاکٹرز کی بھی شدید ضرورت ہے ،اس میں بہترین رول اداکریں ،مگر گارجیں حضرات کی طرف سے تربیت کا عمدہ نظام قائم کیاجائے،حقوق اللہ اور حقوق العباد،نیکی بدی میں فرق،سچائی،صفائی،وقت کی پابندی،محبت اور ایثار و ہمدرد ی کا سبق پڑھایاجائے تاکہ وہ صاف ،ستھری اور اسلامی طریقے کے مطابق پاکیزہ زندگی بسرکرسکیں!
مگر جو مخلوط نظام تعلیم ہے ،جہاں پر لڑکے اور لڑکیوں کے اختلاط کو برائی نہیں سمجھا جاتا ،ظاہر ہے ان اداروں سے فارغ ہونے والی لڑکیوں سے خیر کی توقع نہیں کی جاسکتی ہے ،ہمارے گارجین اوروالدین ایسے اداروں میں ایڈمیشن دلانے سے قبل بنیادی باتوں پر ضرور غورکرلیں،اور یہ سوچیں کے تعلیم کا مقصد صرف رضائے الٰہی ہے ،جس تعلیم سے اللہ کی رضاکا حصول ممکن نہ ہو ،اللہ اور اس کے رسول کے پیغامات وارشادات پر عمل کرناممکن نہ ہووہ تعلیم یقینازہرہلاہل ہے!!
آپ کا ردعمل کیا ہے؟