خصائص سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم

لغت میں سیرت کے معانی سنت ، طریقہ اور ہیئت کے ہیں، اور اصطلاح میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول، فعل تقریر اور صفت خَلقیہ وخُلقیہ کو کہتے ہیں ، سیرت چاہے بعثت سے پہلے کی ہو یا بعد کی سیرت نبوی میں داخل ہے، محدثین نے سنت کی یہ تعریف کی ہے اور یہی تعریف سیرت کی بھی ہے چونکہ لغت میں سیرت کا معنی سنت بھی ہے، اور جب کہا جائے "سیرت نبوی" تو اس سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ہوتی ہے، اسی لیے مؤلفین نے اپنی تالیفات کو سیرت نبوی سے موسوم کیا ہے جیسے السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق، السیرۃ النبویۃ لابن حزم ، السریۃ النبویۃ لابن عساکر، السیرۃ النبویۃ لعبد الغنی المقدسی، ان تمام کتابوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات کا ذکر ہے، سیرت نبو ی کی اس مختصر سی وضاحت کے بعد اسکے چند خصوصیات درج ذیل ہیں۔ 1۔ سیرت نبوی کے مصادر الہی وربانی ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی خاص خطہ یا خاص قبیلہ کے لیے نہیں بھیجے گئے بلکہ رب کی جانب سے دنیا کے تمام لوگوں کی طرف بھیجے گئے اللہ تعالی کا ارشاد ہے :" قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَۨا " ترجمہ: آپ کہہ دیجئے کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف سے اس اللہ کا بھیجا ہوا ہوں ۔(1)

May 10, 2023 - 13:49
 0  26

 

خصائص سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم

                               "   محمد عرفان مدنی   

 

لغت میں سیرت کے معانی سنت ، طریقہ اور ہیئت کے ہیں، اور اصطلاح میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول، فعل تقریر اور صفت خَلقیہ وخُلقیہ کو کہتے ہیں ، سیرت چاہے بعثت سے پہلے کی ہو یا بعد کی سیرت نبوی میں داخل ہے، محدثین نے سنت کی یہ تعریف کی ہے اور یہی تعریف سیرت کی بھی ہے چونکہ لغت میں سیرت کا معنی سنت بھی ہے، اور جب کہا جائے "سیرت نبوی" تو اس سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ہوتی ہے، اسی لیے مؤلفین نے اپنی تالیفات کو سیرت نبوی سے موسوم کیا ہے جیسے السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق، السیرۃ النبویۃ لابن حزم ، السریۃ النبویۃ لابن عساکر، السیرۃ النبویۃ لعبد الغنی المقدسی، ان تمام کتابوں میں نبی کریم  صلی اللہ  علیہ وسلم کی حیات کا ذکر ہے، سیرت نبو ی  کی اس مختصر سی وضاحت کے بعد اسکے چند  خصوصیات درج ذیل ہیں۔

1۔ سیرت نبوی کے مصادر الہی وربانی ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی خاص خطہ یا خاص قبیلہ کے لیے نہیں بھیجے گئے بلکہ رب کی  جانب سے دنیا کے تمام لوگوں کی طرف بھیجے گئے اللہ تعالی کا ارشاد ہے :" قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَۨا "

ترجمہ: آپ کہہ دیجئے کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف سے اس اللہ کا بھیجا ہوا ہوں ۔(1)

 اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم ودعوت اللہ کی جانب سے تھی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم وحی الہی کے بغیر لب کشائی ہی نہیں کرتے حتی کہ مزاح اور خوش طبعی کے موقعوں پر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی زبان مبارک سے حق کے سوا کچھ نہ نکلتا تھا ، اسی طرح حالت غضب میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے جذبات پر اتنا کنٹرول تھاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے کوئی بات خلاف واقعہ نہ نکلتی ۔  ارشاد ربانی ہے:" وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰى۝۳ۭاِنْ ہُوَاِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى۝۴ۙ"

ترجمہ: اور نہ وہ اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں۔وہ تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے۔(2)

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی زبان سے ادا ہونے والا قول رب العالمین  کا  اتارا ہوا کلام ہے نہ تو اپنی طرف سے گھڑ کر رب کی طرف منسوب کیا اور نہ اس میں کمی بیشی کی ، اگر ایسا کرتے تو اللہ تعالی فورا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا مؤاخذہ کرتے اور ڈھیل نہ دیتے، اللہ تعالی کا فرمان ہے۔"وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِيْلِ۝۴۴ۙلَاَخَذْنَا مِنْہُ بِالْيَمِيْنِ۝۴۵ۙثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِيْنَ۝۴۶ۡۖ"

ترجمہ:اور اگر یہ ہم پر کوئی بات بنا لیتا ۔تو البتہ ہم اس کا داہنا ہاتھ پکڑ لیتے ۔پھر اس کی شہ رگ کاٹ دیتے ۔(3)

 ان خصوصیات کی بعض چیزوں میں اگر چہ دوسرے انبیاء بھی شریک ہیں لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں کی طرف بھیجے جانے میں منفرد ہیں اور آپ کے اوامر ونواہی پوری امت کے لیے مقرر اور لازم ہیں۔

2۔سیرت نبوی ثابت اور صحیح ہے : سیرت نبوی کی ایک خصوصیت یہ ھیکہ  اللہ تعالی نے قرآن مجید کے اندر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کا ذکر اجمالی طور پر کیا ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ابتدائی زندگی کے بارے میں بیان کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یتیم تھے تو اللہ رب العزت نے اس کی دست گیری اور چارہ سازی کی ، شریعت وایمان کی طرف رہنمائی کی ، نبوت سے نوازا، کتاب نازل کی اور ہر ایک سے بے نیاز کردیا ، اللہ تعالی نے فرمایا :" اَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيْمًـا فَاٰوٰى۝۶۠وَوَجَدَكَ ضَاۗلًّا فَہَدٰى۝۷۠وَوَجَدَكَ عَاۗىِٕلًا فَاَغْنٰى۝۸ۭ"

ترجمہ: کیا اس نے یتیم پا کر جگہ نہیں دی ۔اور تجھے راہ بھولا پا کر ہدایت نہیں دی ۔اور تجھے نادار پا کر تونگر نہیں بنا دیا ۔(4)

اسی طرح قرآن  میں نزول وحی کا ذکر آیا ہےکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غار حرا میں مصروف عبادت تھے تو سب سے پہلی وحی آئی:" اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ۝۱ۚخَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ۝۲ۚاِقْرَاْ وَرَبُّكَ الْاَكْرَمُ۝۳ۙالَّذِيْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ۝۴ۙعَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ۝۵ۭ"

ترجمہ: پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا ۔جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا ۔جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا ۔جس نے قلم کے ذریعے (علم) سکھایا۔ جس نے انسان کو وہ سکھایا جسے وہ نہیں جانتا تھا۔(5)

 بعثت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت کا کام شروع کیا اور اس کی ابتداء اپنے کنبے وقبیلے والوں سے کی کیونکہ رب کا یہی حکم تھا ۔"وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ"

ترجمہ: اپنے قریبی رشتہ والوں کو ڈرا دے ۔(6)

 سیرت نبوی کا ثبوت اور صحت کی دلیل یہ بھی ہےکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امانت وصداقت ، حلم وکرم، اور دیگر اخلاقی خوبیاں اللہ تعالی نے قرآن  کریم میں بیان کیا ہے۔"وَاِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ"

ترجمہ:اور بیشک تو بہت بڑے (عمدہ) اخلاق پر ہے۔(7)

 اسی لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے بابت سوال کیا گیا تو فرمایا :" کان خلقہ القرآن"(8) اللہ تعالی  نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلق عظیم کے بارے میں ایک دوسری آیت میں فرمایا :" فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللہِ لِنْتَ لَھُمْ۝۰ۚ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ۝۰۠ فَاعْفُ عَنْھُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَھُمْ "

ترجمہ: اللہ تعالیٰ کی رحمت کے باعث آپ ان پر رحم دل ہیں اور اگر آپ بد زبان اور سخت دل ہوتے تو یہ سب آپ کے پاس سے چھٹ جاتے سو آپ ان سے درگزر کریں اور ان کے لئے استغفار کریں ۔(9)

 محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کا ایک اہم باب غزوات ہے ان کے احوال وکوائف کا ذکر بھی اللہ تعالی نے قرآن میں کیا ہے ، جنگ بدر کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا:" كَـمَآ اَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِنْۢ بَيْتِكَ بِالْحَقِّ۝۰۠ وَاِنَّ فَرِيْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ لَكٰرِہُوْنَ"

ترجمہ: جیسا کہ آپ کے رب نے آپ کے گھر سے حق کے ساتھ آپ کو روانہ کیا  اور مسلمانوں کی ایک جماعت اس کو گراں سمجھتی تھی ۔(10)

غزوہ احد کی حالت کا ذکر بھی کیا :" ووَاِذْ غَدَوْتَ مِنْ اَھْلِكَ تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِيْنَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ۝۰ۭ وَاللہُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ"

ترجمہ: اے نبی! اس وقت کو بھی یاد کرو جب صبح ہی صبح آپ اپنے گھر سے نکل کر مسلمانوں کو میدان جنگ میں لڑائی کے مورچوں پر باقاعدہ  بٹھا رہے تھے اللہ تعالیٰ سننے اور جاننے والا ہے۔(11)

 یہ چند آیتیں بطور مثال پیش کی گئیں جو اس بات پر دال ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت بالکل صحیح اور ثابت ہے کیونکہ  اللہ تعالی نے اسے خود بیان کیا ہے اور ان کے علاوہ بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کی حیات پر مشتمل بہت سی آیتیں ہیں، حدیث کی کتابوں میں خصوصا صحیحین میں سیرت  نبوی کا ایک بڑا حصہ منقول ہے ۔

3۔ سیرت نبوی کامل وشامل ہے: سابقین انبیاء میں سے کسی نبی کی سیرت انسانی زندگی کے ہر گوشے کو شامل نہیں ہے، ولادت سے وفات تک اس طرح بیان نہیں کیا گیا ہے  کہ وفات کے بعد باقی رہے، لیکن   ہمارے آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت زندگی کے تمام مراحل پر مشتمل ہے بلکہ بعض چیزوں میں دن، مہینہ اور سال کا بھی ذکر ہے اس میں عدل، مساوات ، حریت اور انسان وجانور کے ساتھ رفق اور شفقت ومحبت موجود ہے۔

4۔ سیرت نبوی میں توسط اور آسانی ہے : دین اسلام عموما توسط اور عدل پسندی کا دین ہے نیز اس دین کے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں بھی توسط، عدل اور سہولت پسندی کا درس ہے ، اللہ تعالی نے فرمایا :" وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَہِيْدًا"

ترجمہ: ہم نے اسی طرح تمہیں عادل امت بنایا  تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو جاؤ اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) تم پر گواہ ہو جائیں۔(12)

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  :"یسروا ولا تعسروا وبشروا ولا تنفروا "

ترجمہ:تم آسانی کرو سختی نہ کرو اور بشارت دو نفرت نہ پھیلاؤ۔(13)

دوسری حدیث میں فرمایا :"انما بعثتم میسرین ولم تبعثوا معسرین" تم لوگ صرف آسانی کے لیے بھیجے گئے سختی کے لیے نہیں بھیجے گئے ہو۔(14)

حواشی:

1۔(الاعراف:7/158)

(النجم:53/4-3)

(الحاقۃ:69/44-46)

(الضحی:93/6-8)

(العلق:96/1-5)

( العشراء:26/214)

( القلم:68/4)

(سنن ابی داود ، رقم الحدیث:1342)

( آل عمران:3/159)

10۔( الانفال:8/5)

11۔ (آل عمران:3/121)

12۔( البقرۃ:2/143)13

13۔(صحیح البخاری، رقم الحدیث:6124،صحیح مسلم، رقم الحدیث:1734)

14۔(سنن ابی داود:380)

 

   

 

 

آپ کا ردعمل کیا ہے؟

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow