اسلامی دعوت کی اشاعت میں فضلاء جامعات سعودیہ کا رول

دعوت دین کی راہ میں نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی خیر خواہی کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ طوالت کے خوف سے صرف ایک حدیث کے ذکر پر اکتفا کرتا ہوں۔ صحیح مسلم میں جابر رضی اللہ عنہ اور صحیح بخاری ومسلم میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعا روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :" میری اور تم لوگوں کی مثال اس شخص کی ہے جس نے آگ روشن کی تو کیڑے مکوڑے اور پروانے اس میں گرنے لگے اور وہ شخص ازراہ شفقت انہیں آگ میں گرنے سے روکنے لگا۔ میں بھی تمہاری کمر پکڑ پکڑ کر جہنم کی آگ میں گرنے سے روک رہا ہوں اور تم ہو کہ میرے ہاتھوں سے چھوٹنے کی کوشش کررہے ہو۔

May 10, 2023 - 12:05
 0  13

 

اسلامی  دعوت  کی اشاعت میں فضلاء جامعات سعودیہ کا رول

                           "   محمد اشفاق سلفی     

 

کسی بھی مذہب کے حرکت ونمو اورزندگی وتابندگی  کی قوت کا صحیح اندازہ اس کے متبعین کی دعوتی سرگرمی ،تبلیغی جدوجہد اور عملی زندگی سے لگا یا جاسکتا ہے ۔ اگر کسی مذہب کی تبلیغ واشاعت کا کام روک دیا جائے تو اس کا وجود خطرے میں پڑجائےگا۔ چنانچہ  اسی نقطہ کے پیش نظر دین اسلام نے بھی اپنی روشن تعلیمات کو بنی  نوع انسان کے ہر فرد اور دنیا کے ہر گوشہ  تک پہنچانے  کے لیے اپنے متبعین پر دعوت وارشاد کو فرض قرار دیا ہے۔ دعوت وارشاد  تمام انبیاء ورسل  علیہم السلام کا خاص وظیفہ اور اصل مشن رہا ہے۔ نبوت کے سلسلہ کی آخری  کڑی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے سچے متبعین کی ذمہ داری کو قرآن مجید یوں بیان کرتا ہے :" قُلْ ہٰذِہٖ سَبِيْلِيْٓ اَدْعُوْٓا اِلَى اللہِ۝۰ۣؔ عَلٰي بَصِيْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِيْ۝۰ۭ "(1) آپ کہہ دیجئے  میری  راہ یہی ہے، میں ا ور میرے متبعین پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ اللہ کی طرف بلا رہے ہیں۔ اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اصل ذمہ داری  تبلیغ دین اور اشاعت  حق ہے جس میں کسی قسم کی مداہنت آپ کے لیے روا نہیں رکھی گئی ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:" يٰٓاَيُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّــغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ۝۰ۭ وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ" اے رسول جو کچھ بھی آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے ، پہنچا دیجئے۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ  کی رسالت ادا نہیں کی ۔ الحمد للہ اس آیت کے بموجب  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطریق احسن اوربکمال اخلاص اللہ کی سپرد کر وہ ذمہ داری  ادا فرمائی اور تبلیغ  رسالت ، ادا ، امانت اور نصح امت پر خود امت سے اقرار لے کر اللہ رب العالمین  کو اس پر گواہ بنادیا ۔ فصلوات اللہ وسلامہ علیہ ۔  دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اور آپ کی لائی ہوئی شریعت کا دوسروں تک  پہنچانا آپ کے متبعین کا بھی فریضہ ہے اور حقیقی معنوں میں وہی شخص متبع رسول کہلانے کا حقدار ہے جو فریضہ دعوت  وارشاد کو علی منہاج  النبوت ادا کرتا ہے اور ایک تیسری  اور اہم بات یہ ثابت ہوئی کہ دعوت کا کام علی وجہ البصیرۃ یعنی علم ویقین کی  مضبوط اساس پر انجام دینا ضروری ہے، کسی قسم کا شک وتذبذب   دعوت کی معنویت  کو ختم کردے گا۔ نیز دعوت کا اتنا اہم فریضہ  اگر اخلاص وللہیت  سے خالی ہو تو بے سود ہے۔ وہی دعوت رنگ لاتی ہے جو حق اور فطرت سے ہم آہنگ ہو اور جس کے دعاۃ ومبلغین  مخلص اور نشیط ہوں، جنہوں نے اسی کو اپنا مشن اور اوڑھنا بچھونا  بنالیا ہو۔ کیونکہ آرام وراحت کی زندگی وہ بسر کرتا ہے جو اپنے لیے جیتا ہے۔ لیکن ایک داعی جس نے دعوتی ذمہ داری اپنے سر لے رکھی ہو، جس کے کندھے پر اصلاح امت کا سارا بوجھ ہو اور اس کا م میں وہ نبی کا جانشین ہو اسے آرام وراحت اور نرم وگرم بستر  کی کیا پرواہ ؟ اسے تو ہمیشہ  دوسروں کی ہدایت  کی فکر لاحق ہوتی ہے۔ فریضہ دعوت کی ادائیگی   در اصل میدان جہاد کفاح میں کودنے کا نام ہے جہاں داعی کونت  نئي پریشانیوں اور آزمائشوں سےگذرنا پڑتا ہے اور مخلص داعی انہیں بخوشی جھیل بھی لیتا ہے۔

 دعوت  واصلاح  کے فریضہ کی ادائیگی  سے متعلق پہلی وحی سورۂ مدثر کی ابتدائی آیات کی صورت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی"يٰٓاَيُّہَا الْمُدَّثِّرُ۝۱ۙقُـمْ فَاَنْذِرْ۝۲۠ۙوَرَبَّكَ فَكَبِّرْ۝۳۠ۙوَثِيَابَكَ فَطَہِرْ۝۴۠ۙوَالرُّجْزَ فَاہْجُرْ۝۵۠ۙوَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ۝۶۠ۙوَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ۝۷ۭ"(2) اے کپڑا اورڑھنے والے، کھڑے ہو جاؤ اور آگاہ کر دو یعنی شرک وبت پرستی اور اللہ کی جا نب میں گستاخی  کرنے والوں کو ان کے انجام بد سے ڈراؤ۔ آخر میں حکم ہوا "ولربک فاصبر" یعنی رب کی را ہ میں ، دعوت الی اللہ کی راہ میں صبر کرو۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعوتی ذمہ داری کو ادا کرنے میں زندگی کا ایک ایک لمحہ قربان کردیا ، خلعت نبوت ورسالت سے سرفراز کئے جانے کے بعد سے لے کر زندگی کے آخر سانس تک تبلیغ دین کی عظیم ذمہ داری  کی ادائیگی میں مشغول و منہمک رہے، سستی وکاہلی اور تن آسانی کو کبھی  راہ نہ دی ۔ نبوت کے تین سالوں تک سری اور انفرادی  طور پر آپ لوگوں کو اللہ تعالی کی توحید کی طرف  بلاتے رہے اور انہیں شرک کی قباحتوں سے خوف دلاتے رہے اور اس دوران بفضلہ تعالی  مومنوں کی ایک جماعت وجود میں آگئی ۔ پھر جب اللہ تعالی نے اپنے فرمان"وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَۙ"(3) اپنے قریبی رشتہ داروں  کو ڈراؤ اور فرمان  عالی "فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَاَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِيْنَ" (4) یعنی آپ اس حکم کو جو آپ کو کہا جارہا ہے کھول کر سنا دیجئے اور مشرکین  سے منہ پھیر لیجئے  یعنی ان کی مخالفتوں اور گالیوں کی پرواہ کئے بغیر اپنے فریضہ دعوت کی ادائیگی  میں لگ جایئے۔ کے ذریعہ  علانیہ  طور پر دعوت کا مکلف فرمایا  اور آپ مشرکین  کے شرکیہ  عقائد اور خرافتی  اعمال  کا رد کرنے لگے تو ان کے اندر کی جاہلی حمیت ایسی جاگی کہ انہوں نے آپ کی عداوت میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی اور آپ نے بھی بڑی بے جگری سے ان کے نت نئے مظالم اور مصائب پر صبر کیا ، کبھی دل برداشتہ نہیں ہوئے بلکہ نازک اور سنگین حالات میں اپنے ساتھیوں کا حوصلہ  بڑھاتے  رہے اور انہیں حوش آئند مستقبل کی بشارت دیتے رہے ۔ یہاں تک کہ "والعاقبۃ للتقوی"(انجام کارمتقیوں کے لیے ہے) اور "وکان حقا علینا نصر المومنین" (ہم پر مومنوں کی نصر و حمایت ضروری ہے ) وغیرہ آیات قرآنیہ کی عملی تفسیر  سامنے آنے لگی ، اللہ کا کلمہ بلند ہوگیا ، ایمان کی کرنیں ضیا پاشی کرنے لگیں  اور توحید کا جھنڈا لہرانے لگا اور آپ اس دنیا سے اس حالت میں رخصت ہوئے کہ اللہ کا پسندیدہ دین" اسلام" کامل ومکمل ہو چکا تھا ۔ لہذا راہ حق کا داعی  جس قدر بھی محنت کرے اسے ہمیشہ کم جانے اور زیادہ سےزیادہ  اور خوب سے خوب ترکی  کوشش کرے، دعوت کی پر خطر راہ کی کلفتوں اور پریشانیوں کو خوشی خوشی  برداشت کرے، نوم وراحت کو اللہ کی خاطر تج دے اور زندگی  کے آخری لمحے تک  حق کا جانباز سپاہی بنا رہے۔  ان شاء اللہ وہ اپنی دعوت کے ثمرات دنیا وآخرت میں ضرور دیکھے گا ۔

دعوت دین کی راہ میں نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی خیر خواہی کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ طوالت کے خوف سے صرف ایک حدیث کے ذکر پر اکتفا کرتا ہوں۔ صحیح مسلم میں جابر رضی اللہ عنہ اور صحیح بخاری ومسلم میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعا روایت ہے رسول اللہ صلی  اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :" میری اور تم لوگوں کی مثال اس شخص کی ہے جس نے آگ روشن کی تو کیڑے مکوڑے اور پروانے  اس میں گرنے لگے اور وہ شخص ازراہ شفقت انہیں آگ میں گرنے سے روکنے لگا۔ میں بھی تمہاری کمر پکڑ پکڑ کر جہنم کی آگ میں گرنے سے روک رہا ہوں اور تم ہو کہ میرے ہاتھوں سے چھوٹنے کی کوشش کررہے ہو۔

کفار ومشرکین  کے ایمان لانے کی جتنی شدید خواہش اور ان کی ہدایت کی جو تڑپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر موجود تھی اور ان کے اعراض واستکبار  سے آپ کو جو سخت اذیت ہوتی  تھی اس کا اظہار باری تعالی  نے یوں فرمایا ہے :" فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلٰٓي اٰثَارِہِمْ اِنْ لَّمْ يُؤْمِنُوْا بِہٰذَا الْحَدِيْثِ اَسَفًا"(5)کہ اگر یہ لوگ اس قرآن پر ایمان نہ لائیں تو کیا آپ ان کےپیچھے اسی رنج میں اپنی جان ہلاک کر ڈالیں گے۔  ایک مقام پر  یوں فرمایا :" لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ اَلَّا يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ"(6) یعنی ان کے ایمان نہ لانے پر شاید آپ تو اپنی جان ہی کھودیں گے۔

ہندوستان میں دعوت اسلامی  کے مراحل:

داعی اعظم اور نبی خاتم صلی اللہ علیہ وسلم  کی تئیس سالہ دعوتی جدوجہد  اور صبر ومصابرت بار آور ہوئی اور دعوت اسلامی کی نورانی  کرنیں آپ اور آپ کے اصحاب کرام  کی کوششوں سے جزیرہ نمائے عرب کی سرحدوں کو پار کرتے ہوئے دنیا کے مختلف خطے میں پہنچنے لگیں ۔  جن خطوں تک اسلام کی روشنی پہنچی ان میں ہندوستان  بھی تھا ۔ ابھی پہلی صدی ہجری بھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ ہندوستان کا بعض حصہ نور اسلام سے منور ہوگیا ۔ پھر آہستہ  آہستہ  اس نے ملک کے طول وعرض  میں اپنی  جگہ بنائی۔ دعاۃ اسلام کا جو پہلا قافلہ ہندوستان  آیا  وہ خالص اسلام کا  داعی تھا ۔ کتاب اللہ  اور سنت مصطفی اس کا  دستور العمل اور لائحہ زندگی تھا۔ البتہ چوتھی  صدی ہجری میں ایران کے راستے جو اسلام اس  ملک میں آیا وہ عجمی افکار  ونظریات سے آلودہ اور شیعیت کے رنگ میں رنگا ہوا تھا ۔  بہر حال یہ افسوس  ناک بات ہے کہ جس ملک میں اسلام کی آمد کی تاریخ اتنی قدیم ہو اس کی اصل صورت اور واضح تعلیمات کو پہنچنے میں اتنی  تاخیر کیوں ہوئی؟ تاجدار ان  مغلیہ  نے اس وسیع  وعریض ملک  پر تقریبا 850 سال تک  حکومت کی لیکن وہ بھی اسلام کی دعوت اور دین برحق کی حقیقی نمائندگی   کرنے سے قاصر رہے۔بالآخر شیخ عبد الحق محدث دہلوی مجدد الف ثانی احمد سر ہندی اور پھر شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی مساعی جمیلہ سے دعوت اسلامی کو نیا اور انقلابی رخ ملا اور خاص کر شاہ صاحب کی حج بیت اللہ سے واپسی کے بعد ان کی دعوت اور ان کے فکر ونظر میں نمایاں تبدیلی  آئی اور انہوں نے کتا ب وسنت کی تعلیمات سے براہ راست استفادہ کی طرح ڈالی ۔  پھر ان کی دعوت حریت فکر کی آبیاری ان کے فرزندوں نے کی لیکن یہ فکران  کے پوتے شاہ اسماعیل  بن عبد الغنی  اور ان کے رفقاء کار مردان میدان  دعوت  وعزیمت علماء صادق پور کی مخلصانہ  اور انتھک جدو جہد سے تحریک عمل  بالکتاب والسنۃ کی شکل اختیار کر گئی  اور اس کے جیالے متحدہ ہندوستان اور نیپال کے طول وعرض میں پھیل  گئے اور خالص اسلام کی دعوت کو تحریکی  شکل میں  عوام کے سامنے  پیش کیا ۔ یہ تحریک  معرکہ بالاکوٹ کے بعد متاثر ضرور ہوئی لیکن  مسلم معاشرہ میں صحیح عقیدہ  اور اتباع کتاب وسنت  کا ایسا پودا لگا دیا جس کے شگفتہ پھولوں کی بھینی  بھنیی  خوشبو سے ملت اسلامیہ ہند آج تک مشام جان  کو معطر کررہی ہے۔

ہندونیپال کی اسلامی دعوت میں ایک نیا موڑ:

 ہندونیپال کی اسلامی دعوت کی تاریخ میں وہ دن سنہرے حروف میں رقم کئے جانے کے قابل ہے جس  میں خالص توحید اور کتاب وسنت  کی دعوت پر قائم حکومت سعودی عرب نے بیرونی ممالک کے طلبہ کو اپنی جامعات میں اعلی تعلیم کے حصول کی دعوت دی اور اسلام کے صاف وشفاف چشمے سے سیراب ہو کر دعوت دین کے فرائض کو بحسن وخوبی انجام دینے کے لیے مواقع فراہم کئے۔ چنانچہ شیدائیان علوم نبوت ، کاروان کتاب وسنت اور قافلۂ  دعوت وعزیمت نے حکومت سعودیہ  کی دعوت پر لبیک  کہتے ہوئے مرکز اسلام، مہبط وحی اور گہوارہ  علم وفن میں قدم رنجہ ہو کر دامن مراد کو گوہر مقصود  سے بھر لیا اور پھر علم وبصیرت  سے آراستہ ہو کر دعوتی میدان میں دیوانہ وار کود پڑے اور وہ شمع جو برسوں سے دھیمی  نظر آرہی تھی اس کو فروزاں کردیا اور آج فارغین جامعات سعودیہ کا یہ کاروان  دعوت آزمودہ اور نو آزمودہ افراد کے ساتھ اپنی شعلہ  نوائی اور قلمی  جولانی  کے ذریعہ کافرانہ  عقائد، ہندوانہ رسومات اور جاہلانہ طلسمات کے نشیمن کو خاکستر کرنے اور صنم کدۂ ہندونیپال میں شیوۂ آذری پر تیشہ چلانے میں مصروف نظر آرہے ہیں۔ فبارک اللہ فی سعیھم۔

 فارغین کا دعوتی  میدان:

 فارغین  جامعات سعودیہ  کی دعوتی سرگرمیوں کی بنیادی طور پر تین حصوں میں تقسیم  کیا جاسکتا ہے۔ (1) تعلیم وتدریس (2) تصنیف وتالیف(3) دعوت وارشاد

تعلیم وتدریس :

 ہندوستانی مدارس ایک زمانہ سے روایتی  نصاب تعلیم  اور قدیم طرز تدریس  کو نقس راہ بنائے ہوئے تھے جس سے طلبہ علوم نبوت کی  تعلیم اور اسلام کو وسیع اور عالمی تناظر میں سمجھنے  کا دائرہ انتہائی  تنگ نظر آتا تھا ۔ منطق وفلسفہ اور قدیم طرز پر لکھی گئی دیگر فنون کی کتابیں داخل نصاب تھیں۔ چند مدارس کو  چھوڑ کر فن حدیث کی تعلیم محض تبر کادی جاتی تھی ۔ کتب  عقائد صحیحہ کی جگہ اشعری اور ماتریدی  عقائد کی نمائندہ کتابیں زیر درس تھیں۔ فارغین  جامعات سعودیہ  کی آمد سے تعلیمی  نصاب اور طرز تدریس میں کافی حد تک  خوش گوار تبدیلی آئی اور علوم اسلامیہ میں عقائد اور حدیث وتفسیر کے فنون اپنے نئے پیرہن میں جلوہ گر ہوئے جس سے مدارس اسلامیہ نئی شکل میں عوام کے سامنے  ظاہر ہوئے۔ گرچہ  تیزی سے بدلتے ہوئے حالات میں مزید اصلاح کی ضرورت ہے ۔ بہر حال ان فارغین کے ذریعہ قائم کردہ مدارس  یا جزوی طور پر ان کے ذریعہ نصاب تعلیم  میں کی گئی  تبدیلی  اور طریقۂ تدریس سے مستفید ہونے والے طلبہ کے ذریعہ اصلاح امت  کا بڑا کام انجام پارہا ہے۔ اب مشکوۃ نبوت سے برا ہ راست استفادہ کرنے والے علماء اور دعاۃ کی اچھی خاصی تعداد نظر آرہی ہے۔

 تصنیف وتالیف:

 عصر درازسے اسلامی کتب خانے ایسی تصنیفات  کی ضرورت محسوس  کررہے تھے جو جدید ماحول میں اسلام کی خالص تعلیمات کو صحیح نصوص کی روشنی میں پیش کرتی ہوں ۔ اگرچہ اسلامی مکتبات میں پہلے سے بھی اسلامی عقائد ومسائل پر مشتمل کتابیں موجود تھیں لیکن ان میں سے اکثر کا طرز استدلال اور طریقہ تصنیف  وتالیف قدیم  وروایتی ہونے کے ساتھ مواد اور مشتملات بھی ضعاف اور موضوع روایات سے اٹا ہوا  تھا اور اکثر مؤلفین کی حیثیت حاطب لیل کی تھی ۔ فارغین  جامعات سعودیہ  نے اس میدان میں قدم رکھ کر اپنی علمی تحقیقات تخریجات اور جدید تصنیفات کے ذریعہ نئے دورکے تقاضے کے مطابق بہت عمدہ پیش رفت کی اور قابل قدر خدمات انجام دیں بلکہ  حقیقت یہ ہےکہ تخریج وتحقیق کا سلسلہ اور احادیث کو صحت وضعف کے حکم  کے ساتھ  بیان کرنے کا مزاج انہی فارغین کی وجہ سے ہندوستان  میں عام ہوا ہے۔ اس طرح بہت سی بے بنیاد باتوں اور فضائل اعمال سے متعلق جعلی راویتوں کا طلسم ٹوٹا ہے اور بہت حدتک عوام  وخواص بدعات وخرافات سے دامن کش اور گریزاں نظر آنے لگے ہیں۔

وعظ وارشاد:

 صحیح اسلامی تعلیمات کو عام کرنے، غلط رسوم  ورواج کے سیل رواں کے سامنے بند باندھنے ، امت  مسلمہ کو خالص دین سے  جوڑ نے، باطل افکار ونظریات کے تارو پود  نکھیرنے اور تزکیۂ نفس اور قوت حرکت وعمل کو بیدار کرنے کے سلسلے میں وعظ وارشاد کی اہمیت کا انکار ممکن نہیں ہے۔ امت کی اصلاح وترقی کا راز فریضہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ادائیگی  میں پوشیدہ ہے۔ اور یہی وجہ ہےکہ یہ ذمہ داری امت  اجابت کے ہر فرد پر حسب علم وقدرت واجب ہے۔ جیسا کہ ارشاد نبوی: "بغلوا عنی  ولو آیۃ"(7)میری ایک بات بھی معلوم ہو تو اسے دوسروں تک پہنچا دو، کا تقاضا ہے۔ اور جو لوگ باقاعدہ  عالم دین ہیں اور جنہوں نے دین کی سمجھ بوجھ حاصل کی ہے،ان پر شریعت نے بطور خاص دعوت وارشاد کا فریضہ عائد کیا ہے جیسا کہ فرمان الہی "وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّۃٌ يَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْرِ وَيَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِۭ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ"(8) کا مفاد ہے ۔ بہر حال  دعوت وتبلیغ  کا یہ فریضہ بھی ہندو نیپال میں  روایتی  انداز میں  انجام پارہا  تھا ۔ سالانہ جلسہ  کی شکل میں لوگ اسے زندہ رکھے ہوئے تھے جس کی حیثیت میلے ٹھیلے سے کم نہ تھی اور پھر واعظین خوش الحان کے مواعظ رطب ویابس کا مجموعہ ہوا کرتے تھے ۔ الحمد للہ  فارغین جامعات سعودیہ نے اسے نیا موڑدیا اور مساجد میں بالا نتظام دروس قرآن وحدیث، سیمینار اور دینی اجتماعات اور تدریبات کے ذریعہ اس میں وسعت پیدا کی اور مختلف جگہوں پر عورتوںکے لیے الگ سے دروس ومحاضرات کا اہتمام کیا ، جس سے ملک کے ہر خطے اور انسانوں کے ہر طبقے تک حق کی دعوت پہنچنے لگی اورمنبر ومحراب کے ساتھ  قریہ قریہ صدائے توحید گونجنے لگی ۔

فضلائے جامعات کے امتیازات:

 ہندونیپال  میں دعوت اسلامی کے میدان  میں مخلتف جماعتیں کام کررہی  ہیں اور وہ اپنے امتیازی وصف سے جانی جاتی ہیں۔ فارغین جامعات سعودیہ   بھی اس میدان میں نمایاں خصوصیات رکھتے ہیں۔

1۔ اسلامی تعلیمات کو براہ راست کتاب وسنت  سے حاصل کرنا ۔

2۔ منہج رسول اور منہج صحابہ اور فکر سلف  کو اسوہ نمونہ بنانا۔

3۔ مسلم معاشرہ  کو عقا‏ئد باطلہ اور غیر شرعی رسوم وروایات سے حتی الامکان پاک کرنا ۔

4۔ نصاب تعلیم کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ  کرنا اور مفید اور جدید طریقۂ تدریس  کے ذریعہ  طلبۂ علوم نبوت کو  آراستہ  کرنا اور عوام کی اصلاح کے لیے صالح فکرکے حامل علماء کی ٹیم  تیار کرنا۔

5۔مساجد میں  دورس قرآن  وحدیث کا اہتمام کرنا۔

6۔ مختلف  مواقع پر دینی  اجتماعات اور علمی مذاکرات کے ذریعہ لوگوں کو صحیح دینی معلومات بہم پہنچانا۔

بنیادی  اور عمومی  طور پر دعوتی  کازکو آگے بڑھانے کا کام فارغین انجام دے رہے ہیں ۔ اگر چہ   یہاں  بھی اللہ تعالی کا  بیان کردہ اصول"ان سعیکم لشتی" یقینا تمہاری  کوشش جداگانہ ہے، کار فرماہے۔

 اللہ تعالی مملکت سعودی عرب  کو  جو موجودہ وقت میں واحد نمائندہ اسلامی حکومت  ہے اور اللہ کی خالص توحید اور کتاب و سنت کی دعوت کو عام کرنا جس کا نصب العین اور مقصد قیام ہے ، اپنے حفظ وامان میں رکھے اور اس کے حکمراں طبقہ ، اصحاب علم و دانش اور ارباب حل وعقد کو مزید خدمت دین کی توفیق  بخشے  جن کی سرپرستی  میں اسلامی دعوت  کا  قافلہ  نہ صرف دیا ر ہند ونیپال بلکہ دنیا کے تمام خطوں میں اپنی  منزل کی طرف گامزن ہے اور جن کی مبارک کوششوں سے کاروان  توحید متحرک اور فعال نظرآرہاہے۔

کچھ تلخ حقائق:

بڑے افسوس  کی بات ہے کہ دنیا کے راسخین فی العلم علماء وفضلاء کے تربیب یافتہ فرزندان توحید اورہندونیپال سے تعلق رکھنے والے طالبان  علوم شریعت  اور وارثین انبیاءدعوت  اسلامی کی تجدید اور شمع اسلام کے فروغ کے لیے   کلام ربانی" فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَــۃٍ مِّنْھُمْ طَاۗىِٕفَۃٌ لِّيَتَفَقَّہُوْا فِي الدِّيْنِ وَلِيُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَيْہِمْ لَعَلَّھُمْ يَحْذَرُوْنَ" (9) جب اپنے ملک  بھیجے گئے تو ان میں کچھ فارغین (ولا ازکی نفسی علی اللہ ) آج اپنی ہیئت بدل رہے ہیں ، رفتہ رفتہ اپنی شناخت کھوتے جارہے ہیں اور اپنی تعلیمی ودعوتی ذمہ داریوں سے عہدہ بر آہونے کی کوشش کرتے نظر نہیں آرہے ہیں ۔ بلکہ اللہ تعالی  معاف فرمائے ہم میں سے بعض  تو مکی ومدنی کہلا کر بھی عام لوگوں کے طعن وتشنیع کا نشانہ بن رہے ہیں ۔ شاید اسلئے کہ:

٭ ہم میں سے کچھ افراد فریضہ دعوت کی ادائیگی  سے گریزاں نظر آرہے ہیں۔

٭ دینی  اور ملی شناخت اور اسلامی وضع وقطع سے اجتناب کررہے ہیں اور قول وعمل کے تضاد کا شکار ہیں۔

٭ اسلامی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے ادارہ کا قیام یقینا ایک مستحن عمل ہے لیکن اسے دولت وثروت بٹورنے کا ذریعہ بنالینا ہمارے لیے باعث ننگ وعارہے۔

٭ وطن واپسی  کے بعد ہماری  ایک بڑی تعداد عیش کوشی کا شکار ہے جو علم دین کے تقاضے کے سراسر منافی ۔ بلاشبہہ ہماری  یہ غفلت و بے حسی  اور اپنی  ذمہ داریوں  کے تئیں لا پرواہی  جہاں ایک طرف ہمارے سینوں سے میراث نبوت سلب کر لینے  کا سبب بنے گی وہیں ہم دنیا وآخرت کی  رسوائی  سے بھی بچ نہیں سکیں گے۔عند اللہ  ہمیں اپنی کوتاہیوں کا حساب دینا ہوگا اور ظاہر ہےکہ ہمارا یہ جرم عام  لوگوں  کے جرموں کے مقابلہ  میں زیادہ سنگیں ہوگا۔کیونکہ  ایک عالم کی گمراہی  ایک عالم   کی گمراہی کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔

٭ دعوتی پلیٹ فارم پر دیگر جماعتوں سے ہمارے روابط بہت اچھے  نظر نہیں آتے۔اگر چہ نظریاتی  اور مسلکی اختلافات بھی اس راہ کی بڑی رکاوٹ ہیں اور اس اختلاف نے دعوت کے کا زکو بڑا نقصان پہنچایا ۔ لہذا اس اختلاف کو ختم  کرنا اور انبیائی منہج کو اختیار کرنا از بس ضروری ہے۔  انبیاء کرام نے اپنی دعوت کا آغاز عقیدۂ توحید سے کیا ہے اور  حقیقت  بھی یہی ہےکہ جب تک دنیا میں توحید یعنی اللہ تعالی کی خالص بندگی کی  دعوت  عام نہیں ہوگی اور جب تک شرک اور اس کے  اسباب  کا خاتمہ نہیں ہوگا اس وقت تک نہ معاشرہ  کی  اصلاح  ممکن  ہے اور نہ ہی امن وامان کی فضا قائم ہوسکتی  ہے۔ لہذا غایات ومقاصد سے بے توجہی کرنا  اور اسباب ووسائل پر ساری  توجہ مرکوز کرنا جیسا کہ آج اسلام سے نسبت رکھنے والی بعض  تحریکات اور ان سے وابستہ  افراد کا وطیرہ  ہے انبیاء ورسل  علیہم  السلام کے منہج  دعوت  کے منافی ہونے کے ساتھ غیر معقول  اور غیر منطقی بھی ہے۔ حکمت  وعمل پر مبنی  انبیائی منہج سے بہتر کوئي دوسرا منہج  اور طریقہ  ممکن نہیں ہے۔ دعوت کے اس منہج   یعنی البداء ۃبالاہم فالاہم کو ہم  معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی مشہور  حدیث میں بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں یمن کا معلم بنا کر بھیجا  تو فرمایا :"فلیکن اول  ما تدعوھم الیہ شھادۃ ان لا الہ الا للہ "(رواہ الشیخان) یعنی  تمہاری  دعوت کا نقظۂ آغاز لا الہ الا للہ کی شہادت ہونا چاہئے  پھر نماز کی دعوت اور اس کےبعد زکوۃ کی فرضیت اور مالداروں سے لے کر فقراء پر صرف کرنے کا معاملہ ۔

لہذا دعاۃ کو چاہئے کہ اپنی تمام تر کوششیں توحید  باری تعالی کی تحقیق وتثبیت اور اس کی نشر واشاعت میں لگا ویں  اور  شرک کی جڑوں کو معاشرہ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے اپنی کوششوں کو مربوط کریں اور اس معاملے  میں کسی قسم   کی نرمی ، مداہنت و مجاملت کو ہرگزراہ نہ دیں خواہ حالات وظروف کیسے بھی ہوں۔ کیونکہ  عقیدۂ توحید کے مقام ومرتبہ  اور اس کی عظمت شان کا  یہی  تقاضا ہے۔ دین کے اصل الاصول عقیدۂ توحید اور فروعی  مسائل کے درمیان بہت بڑافرق ہے۔ اس  منہج ربانی کو اختیار کرنے والے باہم متفق ومتحد اورایک دوسرے کے مؤید ہوتے ہیں اور مل جل  کر دعوتی  کازکو آگے بڑھاتے ہیں جیسا کہ انبیاء ورسل علیہم جو توحید کے داعی تھے ایک دوسرے کی تائید وتصدیق کیا کرتے تھے۔ ہر سابق نبی ورسول لاحق نبی کی بشارت دیتا تھا  اور بعد میں آنے والا نبی اپنے سابق نبی کی موافقت  ومؤازرت کو اپنا دیتی فریضہ سمجھتا تھا ۔ منہج کی اس شفافیت کے باوجود ہمارے فکری ونظریاتی اختلاف نیز آپسی رسہ کشی ، شکر  رنجی، بغض وعداوت اورسستی شہرت کے حصول کی آرزونے ہمیں  جوتیوں میں دال  بانٹنے پر مجبور کردیا ہے۔

 لہذا آج کے نہایت تیزی سے بدلتے ہوئے  ماحول میں ہمیں اپنی سرگرمیوں کا جائزہ لینا ہوگا اور ہر قسم کی خرافات وتوہمات کا پردہ چاک کرنا ہوگا اور نور ہدایت کو عام کرنے کی  لیے اسی طریقہ کو اختیار کرنا ہوگا جو طریقہ سلف صالحین  نے اختیار  کیا تھا ۔ اللہ کا صحیح دین جو کتاب اللہ وسنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں محفوظ ہے اسے پوری  امانت ودیانت کے ساتھ دوسروں تک پہنچا نے کی ہر ممکن کوشش کرنی ہوگی اور خیر وبھلائی  کے کاموں پر ایک دوسرے  کے تعاون کا جذبہ اپنے اندر  پیدا کرنا ہوگا۔

 اللہ تعالی ہمارے اندر اتحاد اور علمی اسپرٹ پیدا کردے، ہمیں کتاب وسنت پر عامل اور دین کے انہی دونوں بنیادی اصولوں کا داعی بنائے اور جس غفلت وبے حسی ، جمود وتعطل اور عیش کوشی کے ہم شکار ہیں انہیں اپنی رحمت اور اپنے فضل سے دور فرمادے اور ہم سب کو اپنے دین متین کے لیے ، جامعات سعودیہ کے لیے اور ملک وقوم کے لیے مفید بنائے۔ آمین۔

حواشی:

1۔(الیوسف:12/108)

2۔(المدثر:74/1۔7)

3۔(الشعراء:26/214)

4۔(الحجر:15/94)

5۔(الکہف:18/6)

6۔(الشعراء:26/3)

7۔(صحیح  البخاری، کتاب احادیث الانبیاء، باب ماذکر عن بنی اسرائیل، حدیث(3461) عن عبد اللہ بن عمروبن العاص)

8۔(آل  عمران:3/104)

9۔(التوبۃ:9/122)

 

 

 

 

آپ کا ردعمل کیا ہے؟

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow