آزادی نسواں کی آڑ میں اخلاقی بے راہ روی
اس میں کوئی شک نہیں کہ اخلاق حسنہ کے اثرات ازدواجی زندگی اور زوجین کے باہمی تعلقات میں نمایاں طور پر دکھائی دیتے ہیں جن جوڑے کے مابین اخلاقی قدروں کی رعایت کی جاتی ہے عام طور پر ان کا نباہ اعلی پیمانہ پر ہوتا ہے ، نہ ان میں کبھی نوک جھونک کی نوبت آتی ہے اور نہ ہی ایک دوسرے کی تحقیر کا معاملہ سامنے آتا ہے اگر کسی وجہ سے آپس میں کبھی تناؤ یا کشیدگی قائم ہو بھی جائے تو سنجیدگی اور معاملہ فہمی سے حل کر لیا جاتا ہے اور زندگی کی گاڑی اسی طرح حسن رفتاری سے اپنی منزل کی جانب رواں دواں رہتی ہے۔
"…محمد شاہنواز ندوی
اس میں کوئی شک نہیں کہ آزادی ہر انسان کا پیدائشی حق ہے ۔ اسے کسی سے بھی نہیں چھینا جاسکتا ، لیکن یہ آزادی اسی حد تک ہےکہ کسی دوسرے کو تکلیف نہ پہنچے یا اس سے انسانیت کی رسوائی نہ ہو۔ اللہ تعالی نے ہر انسان کو آزادی دی ہے لیکن یہ آزادی اپنے آزاد مفہوم میں نہیں ہے، بلکہ کچھ شرائط سے گھری ہوئی ہے۔ مطلق آزادی یہ ہے کہ آپ اس دنیا میں جو چاہے کرسکتے ہیں،جو چاہے بن سکتے ہیں کسی بھی نوعیت کے کام میں حصہ لے سکتے ہیں ، کسی بھی طرز پر زندگی گزار سکتے ہیں، لیکن انسان کی مطلق آزادی جو خداوند تعالی کی منشا ،ومرضی کے خلاف ہو جس سے مذہب کی شبیہ خراب ہوتی ہو اس پر گرفت لگادی گئی ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن حکیم میں واضح طور پر ارشاد فرمادیا ہے کہ ہم نے انسان کو دونوں راستوں کی رہنمائی کردی ہے۔ ظاہر ہے یہ دونوں راستے ایک جیسے نہیں ہیں، ان میں سے ایک اچھا ہے تو دوسرا برا، اب یہ انسان کی مرضی ہےکہ ان دونوں میں سے کس کا انتخاب کرتا ہے، آیا وہ اچھا راستہ چن کر اپنے مالک حقیقی کو منالیتا ہے یاپھر برے راستے کو چن کر رب تعالی کی ناراضگی مول لیتا ہے ۔ آج دنیا میں جینے والے ہر انسان کا یہی معاملہ ہے ۔ ہر شخص اسی دونوں راستہ میں سے ایک کا انتخاب کرتا ہے ، اسی کے تحت آخرت میں انسانوں کے ساتھ حساب وکتاب کا معاملہ بھی پیش آئے گا۔
آج کل آزادی کے سلسلہ میں بولے جانے والے اس جملہ کا استعمال نہایت غلط طور پر ہونے لگا ہے۔ مرد حضرات آزادی کے غلط اور صحیح میدان کے درمیان فرق کرنے سے قاصر ہیں ہی ،اب یہ جملہ عورتوں کی آزادی، ان کا کھلے عام بازاروں میں پھرنا ، دوکان وآفس میں نوکری کرنے ، کالج واسکول میں آزاد طور پر پڑھنے لکھنے، دوستوں یاروں کے ساتھ پکنک اور سفر میں جانے کے سلسلہ میں استعمال ہونے لگا ہے ، جو کہ باعث تشویش ہے، قابل غورو فکر ہے۔ اسی تصور کا نتیجہ ہےکہ اب پوری دنیا رنگین محفل میں تبدیل ہوگئی،ہرجگہ مردوزن کا اختلاط ہے،حجاب ونقاب بے پردگی میں تبدیل ہوگیا ہے۔ اس ماحول میں جہنم لینے والے بچے یا بچی کی پرورش ایک ایسے ماحول میں ہونے لگی ہے جہاں بے پردگی کے سوا کچھ نہیں ہے۔
فطری طور پر ان بچوں کے دماغ میں عورت کا مرد سے قریب ہونے یا ان سے بات چیت کرنے میں کوئی برائی یاقباحت نظر نہیں آتی ہے ، نہ ان کو اپنے سے بڑوں کی طرح کرنے میں کوئی شرم وعارمحسوس ہوتی ہے ، اس لیے کہ شرم وحیا کسے کہتے ہیں اس کی عملی مشق سے یہ بے گانہ ہیں۔ ان کے سامنے جو کچھ چل رہا ہے یا جس کیفیت میں اپنے معاصرین کو پایا ہے یہی ان کی اپنی جدید تہذیب ہے ۔ والدین کی بھی مجبوری ہے کہ اپنے بچوں کو ایسا کرنے سے منع نہیں کرپاتے بلکہ اب توٹی وی اور ڈی وی ڈی کے ذریعہ انہیں جدید تہذیب سے آراستہ کرنے میں باہم مدد پہنچاتے ہیں، جس کو بچوں سے پیار ومحبت اورشفقت کا نام دیا جاتا ہے۔ ان بچوں کی زندگی میں جدید تہذیب اور خاص طور سے مغربی تہذیب کا اثر ڈالنے والی چیز مخلوط تعلیم ہے ، جہاں شرم وحیا اور حجاب ونقاب کو پس پشت ڈال کر جدید طرز سے تعلیم دی جاتی ہے ، جہاں طلبہ وطالبات اپنے اسباق سے دلچسپی کم اور آپس میں تانک جھانک کی طرف زیادہ دھیان دیتے ہیں ، جہاں ان دونوں مختلف جنس کے درمیان تال میل کو برا نہیں سمجھاجاتا ، اورنہ یہاں اخلاقیات کا درس دیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے طلبہ اور طالبات کے ذہن میں برے خیالات جنم لینے لگتے ہیں ، اور ایسا کیوں نہ ہو اس لیے عورت جس کا معنی ہی پردہ ہے ، جسے محرم کے علاوہ اپنے اور بے گانے سب سے پردہ کرنا لازمی ہے، جو اپنے رشتہ داروں کے ساتھ بھی تنہا نہیں ہوسکتی ہے تو پھر اسکول اور کالج یا پھر بازاروں میں کسی اجنبی شخص کے ساتھ مل کر کیسے بیٹھ سکتی ہے ، اور آج کل کے بگ بازرا جہاں کے کاؤنٹروں پر دوشیزاؤں کو اس لیے رکھا جاتا ہےکہ خریداروں کی بھیڑ امڈ کر آنے لگے اور انہیں برقعہ پہننے سے سختی سے منع کیا جاتا ہے ، اور اگر کوئی برقعہ پہننے پر اصرار کرے تو اس کو نوکری سے ہاتھ دھونا پڑ جاتا ہے، جب دنیا کی خواتین اس طرح کی آزاد زندگی گزار نے لگ جائیں اور اجنبیت کے احساس کو مٹاتے ہوئے ایک دوسرے سے اتنا قریب ہوجائیں کہ دیکھنے والے کوئی تیسرا آدمی کو یہی کہنا پڑے کہ یہ ان کا اپنا ہی ہوگا۔ جب صورت حال ایسی ہوجائے کہ کسی کو برائی سے روک نہیں سکتے کسی کی طرف انگلی نہیں اٹھا سکتے، ایسا کرنا ان کی آزادی پر لگام ڈالنے کے مترادف ہوگا۔ تو پھر وہ دن دور نہیں کہ انسان سماج سے شرم وحیا کا وجود مٹ جائے گا اور ہر طرف شہوت نفسانی کے بھوکے بھیڑ یے نظر آئیں گے ۔ ہر طرف جنسی بے راہ روی کا بازار گرم ہوگا ۔ یہ محض اس ایک خیال کی وجہ سے ہوگا کہ آزادی ہر انسان کا پیدائشی حق ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ آزادی ہر انسان کا پیدائشی حق ہے، بلکہ مذہب اسلام نے خواتین کو ایسے حقوق دلائے ہیں جن سے دوسرے مذاہب کی خواتین یکسر محروم ہیں بلکہ انہیں صرف ایک استعمال ہونے والے پلنگ کی اہمیت دے رکھی ہے کہ جب چاہا استعمال کرلیا اور جب چاہا باہر نکال دیا ۔ اگر امت مسلمہ کی بہنیں اپنے آپ کو اسلامی آزادی کی پابند بنائیں اور حجاب ونقاب کے ساتھ ساتھ شرم وحیا کے زیور سے آراستہ ہو جائیں تو وہ دن دور نہیں کہ قریب سے گزرنے والے اچکے اور لفنگے بھی ان سے شرما کر اپنی زندگی پر لعنت بھیجنے لگ جائیں، اپنے گناہوں پر ماتم کرنے لگ جائیں ، لیکن اس کے لیے پہلے آپ کو قدم اٹھانا ہوگا، آپ ہی کو۔
امور خانہ داری میں عورت کا کردار
اس میں کوئی شک نہیں کہ اخلاق حسنہ کے اثرات ازدواجی زندگی اور زوجین کے باہمی تعلقات میں نمایاں طور پر دکھائی دیتے ہیں جن جوڑے کے مابین اخلاقی قدروں کی رعایت کی جاتی ہے عام طور پر ان کا نباہ اعلی پیمانہ پر ہوتا ہے ، نہ ان میں کبھی نوک جھونک کی نوبت آتی ہے اور نہ ہی ایک دوسرے کی تحقیر کا معاملہ سامنے آتا ہے اگر کسی وجہ سے آپس میں کبھی تناؤ یا کشیدگی قائم ہو بھی جائے تو سنجیدگی اور معاملہ فہمی سے حل کر لیا جاتا ہے اور زندگی کی گاڑی اسی طرح حسن رفتاری سے اپنی منزل کی جانب رواں دواں رہتی ہے۔
آپس میں محبت اور ایک دوسرے کا پاس ولحاظ کا اثر صرف ماں باپ کی ذات تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ ان کی اولاد اور نونہال بچوں میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے ، یہی وجہ ہےکہ اگر ان بچوں میں کبھی کہاسنی ہوجائے تو وہ ادب کے دائرہ میں رہ کر ہوتی ہے ، اس میں لعن طعن ، ہتک عزت کی نوبت نہیں آتی ہے اور ایسے معاملات کو والدین بڑی آسانی وحسن تدبیر سے سلجھا نے میں کامیاب ہوتے ہیں اس طرح سے نہ بچے ضدی مزاج ہوتے ہیں اور نہ کسی ناپسندیدہ وناشائستہ چیزوں کا اصرار کرتے ہیں ، بلکہ والدین بچوں کی عمر اور تقاضہ کے مطابق پہلے ہی سے ضروری اشیاء انہیں فراہم کرتے رہتے ہیں۔
نیک خصلت کی مالک خواتین صرف اپنے زیب وزینت اور میک اپ کے سامان کی طرف ہی دھیان نہیں دیتیں بلکہ ان کے سامنے اپنی صفائی ستھرائی کے ساتھ ساتھ اپنے گھر بار کی صفائی اور خوشنما ماحول بنانے کی فکر بھی دامن گیر رہتی ہے ۔ الماری میں چیزوں کی سجاوٹ اور سلیقہ مندی کے ساتھ ساتھ ضرورت پڑنے پر ان کا استعمال اور ضرورت کی تکمیل کے بعد انہیں اپنی جگہ پر رکھنے کا شعور رکھتی ہیں۔ روز مرہ کے امور کو اس ترتیب سے انجام دیتی ہیں کہ کم وقت میں زیادہ کام سر انجام دے سکیں ، نہ کسی کام سے جی چراتی ہیں اور نہ ہی کسی مشکل کام کو بوجھل سمجھتی ہیں بلکہ اپنے گھر سے متعلق تمام امور کو ادا کرنا اپنی اہم ذمہ داری سمجھتی ہیں ۔ اس طرح کی خوبیوں کی حامل خواتین جہاں اپنے مجازی خدا(شوہر) کی خدمت گزار اور وفا شعار ہوتی ہیں وہیں اپنے بچوں کے ساتھ پیار وشفقت کا معاملہ کرتی ہیں۔ جہاں یہ اپنے جگر پاروں کی خوابیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرنا جانتی ہیں وہیں ان کے اندر سے خوف وجھجک کو دور کر کے انہیں شجاعت ودلیری کا پاٹھ پڑھاتی ہیں۔ انہیں یہ بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ کب بچہ کو ڈانٹنا ہے اور کب انہیں پیار کی ضرورت ہے۔ حد سے زیادہ لاڈ پیار بھی بچوں کو ضدی بنادیتا ہے۔ اچھے اچھے کلمات، سنہرے اقوال اور طفلانہ ادبیات کے قصے سنا کر انہیں مہذب بناتی ہیں، فحش وعریاں لٹریچر اور رقص وسرور پر مبنی سیریل وپروگرام سے دور رکھتی ہیں۔ ان کے سامنے خاوند کے ساتھ کوئی ایسا مذاق کرنے سے گریز کرتی ہیں جس سے بچے غلط اثر لے سکتے ہوں۔
ایک اچھے خاوند جوڑے کی علامت یہ ہےکہ وہ ایک دوسرے کے رنج والم کو بانٹتے ہیں۔ صبر وثبات قدمی کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ۔بچوں کی اچھی تربیت کے ساتھ ساتھ اچھی تعلیم کی طرف توجہ دیتے ہیں ۔ قناعت کے ساتھ سچائی وامانت داری پہ قائم رہتے ہیں ، غرض اس طرح ایک پاکیزہ خاندان کا سفر بآسانی طے ہوجاتا ہے۔ اگر زندگی کے اس راستہ میں کوئی چیز رکاوٹ بن بھی جائے تو اسے حکمت عملی سے دور کرتی ہیں،جو کہ ان کے لیے بے شمار خوشیوں کا سبب بنتی ہیں اور دوسروں کے لیے بھی آئیڈیل ونمونہ کی حیثیت رکتھی ہیں ، کیونکہ یہ ہر لحظہ خوش رہنا جانتی ہیں ، چاہے رنج والم سے دل چور چور ہو لیکن زبان پہ کوئی شکوہ گلہ نہیں ہوتا ۔ در حقیقت انہیں معلوم ہے کہ خوشی کوئی ایسی چیز نہیں جو جو کسی بازار میں مناسب قیمت پر فروخت ہوتی ہو، بلکہ خوشی ایک احساس کا نام ہے جسے محسوس کیا جاتا ہے۔ اسی طرح زندگی کا نام خوشحال اور سدا بہار زندگی ہے۔
آپ کا ردعمل کیا ہے؟